دنیا کے سفر انسان کو تھکا دیتے ہیں لیکن مدینہ کا سفر ساری تھکن اتار دیتا ہے،آرزوؤں اور امیدوں کے پیچھے سرپٹ دوڑنے سے سانس پھول جاتی ہے لیکن کعبہ کی آغوش میں طمانیت کا احساس رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے،لوگوں کے رویے انسان کو توڑ دیتے ہیں لیکن کعبہ کے سائے میں ٹوٹے دل جڑ جاتے ہیں۔یہ سعادتوں کا ایسا سفر ہے جو بار بار کرنے کو جی چاہتا ہے۔کعبہ کی جلالت ایسی ہیبت آفریں شان رکھتی ہے کہ انسانی عقل اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتی۔یہ وہ مرکز ہے جہاں زمین و آسمان کی معنوی گردشیں ایک نقطے پر سمٹ کر بندے کو اس کے اصل سے جوڑ دیتی ہیں۔ اہلِ عرفان کہتے ہیں کہ کعبہ کی عظمت فقط اس کی ساخت میں نہیں، اس نسبت میں ہے جو اسے ربِ کائنات نے بخشی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پہنچتے ہی انسان کے اندر کی تمام بلندیاں، تمام دعوے، تمام فاصلے پگھل کر فنا ہو جاتے ہیں اور بندہ اپنی حقیقت کو پہچان لیتا ہے کہ جلالِ کعبہ اصل میں جلالِ رب کی جھلک ہے جو دلوں کو زیر کر لیتی ہے۔
وہ لمحہ کیسا عجیب ہوتا ہے جب انسان ایک بار پھر حرمِ مکی کے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے، دل دھڑک رہا ہوتا ہے، زبان پر کوئی لفظ نہیں رہتا اور آنکھوں میں ایک ایسی نمی اُتر آتی ہے جو کسی اور کیفیت سے نہیں ملتی۔ راقم کے لیے یہ شرفِ خاص تھا کہ ایک سال میں دوسری مرتبہ بیت اللہ کے دروازے تک لے جایا گیا۔ یہ احساس ہی انسان کی کمر تشکر کے بوجھ سے جھکا دیتا ہے کہ رب اسے دوبارہ اپنے گھر بلا رہا ہے۔ وہ گھر جہاں کسی کا رتبہ نہیں، کسی کا دعویٰ نہیں، بس عاجزی ہے، انکساری ہے اور اپنے ہونے کا اثبات صرف اسی میں ہے کہ بندہ جھک کر کہے: ’’اے پروردگار! میں آ گیا ہوں۔‘‘
جیسے ہی نگاہ پہلی مرتبہ بیت اللہ پر پڑی تو دل کی دھڑکن جیسے رک گئی۔ فضا میں وہی مخصوص خاموشی تھی جو ہزاروں زبانوں کے ذکر سے بھی زیادہ بھاری لگتی ہے۔ انسان چاہے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، اس لمحے اس کی روح بکھر جاتی ہے، اس کے اندر کی وہ پرتیں تک کھل جاتی ہیں جن پر دنیا کی گرد برسوں سے جمی ہوتی ہے۔ خانہ کعبہ کی سیاہ چادر کے سنہری حروف یوں جھلملاتے ہیں جیسے صدیوں پر محیط نور ابھی ابھی ان پر اترا ہو۔ دل نے بے اختیار کہا:
’’پروردگار! یہ منظر شاید جنت کے مناظر میں بھی نہ ملے۔‘‘طواف شروع کیا تو قدم خود بخود ٹھہر سے گئے۔ کبھی لگتا تھا میں چل نہیں رہا، چلایا جا رہا ہوں۔ کبھی یوں لگتا کہ وقت ٹھہر سا گیا ہے اور کبھی محسوس ہوتا کہ میرے اردگرد بہنے والی انسانی موجیں مجھے اٹھائے لئے جا رہی ہیں۔ ہر چکر کے ساتھ دل کی ایک اور گرہ کھلتی گئی۔ کبھی آنکھ بند کر کے محسوس کیا کہ کائنات کی گردش بھی اسی طواف کی ایک جھلک ہے اور شاید یہی فلسفہ ہے کہ سب کچھ اس ایک مرکز کے گرد گھوم رہا ہے،جو رب کی وحدانیت کی علامت ہے۔
ملتزم پر پہنچا تو دل وہ نہیں رہا تھا جو کچھ دیر پہلے تھا۔ جیسے سینے پر ایک بوجھ رکھا ہواور بس اسی ایک جگہ آ کر اُتر جائے۔ ہاتھ پھیلائے، پیشانی جھکائی اور وہ دعائیں مانگیں جنہیں کبھی زبان پر لانے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان کے لیے دعا کرتے ہوئے دل لرز گیا۔ اس ملک کی خیر، اس کے لوگوں کی آسانی، اس کی سرزمین کا امن سب کچھ اس لمحے رب کے سپرد کر دیا۔ عالمِ اسلام کے لئے بھی دل کی گہرائی سے فریاد نکلی کہ یا رب! امت کو جوڑ دے، اس کے دلوں سے نفرت اور تفرقہ نکال دے، اور ہمیں ایک اہل امت بنا دے، نہ کہ منتشر وجودوں کا مجموعہ۔آبِ زمزم کی ٹھنڈک نے حلق سے اترتے ہی ایک خاموش تاثیر دل میں اتار دی۔حرم کی بالائی منزل سے نیچے دیکھتا رہا تو انسانوں کا سمندر ہلتی ہوئی موجوں کی طرح لگتا تھا۔ کوئی رو رہا تھا، کوئی مسکرا رہا تھا، کوئی خاموش کھڑا رب سے سرگوشیاں کر رہا تھا۔ ہر شخص کا اپنا دکھ تھا، اپنی دعا، اپنا راز۔ مگر سب کے دلوں میں ایک ہی امید، ایک ہی سہارا، ایک ہی رب۔ یہی منظر ہمت دیتا ہے کہ دنیا ابھی تک خیر سے خالی نہیں ہوئی۔
رات کے کسی حصے میں جب طواف کرنے والوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے، تو کعبہ کا رنگ اور بھی گہرا محسوس ہوتا ہے۔ اس گھڑی زمین پر وہ سکوت اترتا ہے جس میں فرشتوں کے پر تک محسوس ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی خیال آتا تھا کہ اگر زندگی کی ساری تھکن ایک لمحے میں اتاری جا سکتی ہے تو وہ لمحہ یہی ہے۔ وہیں بیٹھ کر دعا کی کہ اے اللہ! انسان کو
تیری محبت سے بڑھ کر کوئی سہارا نہیں ملتا۔ دنیا کی ساری بھاگ دوڑ، الجھنیں، خواہشیں،لیکن تیرا در ہمیشہ قائم رہتا ہے، ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔
واپسی کے وقت دل بھاری تھا۔ جیسے اپنی کوئی چیز پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔ ہو سکتا ہے وہ سکون ہو، ہو سکتا ہے وہ نور ہو، یا شاید وہ کیفیت جو صرف حرم میں ملتی ہے۔ حرم سے نکلتے ہوئے بار بار دل میں یہی آرزو ابھرتی رہی کہ پروردگار دوبارہ بلالے۔ ایک بار نہیں بارہا۔ اور ہر بار اسی کیفیت میں، اسی عاجزی میں، اسی شکر کے ساتھ۔دعا یہی ہے کہ وطنِ عزیز پر اللہ کی رحمتیں برسیں، اس کی فضاؤں میں امن لوٹے، اور اس کے بچوں کی پیشانیوں سے فکر کی لکیریں مٹ جائیں۔ اور یہ دعا بھی کہ امتِ مسلمہ اپنے مرکز کو پہچان لے،وہی مرکز جس کے گرد ساری کائنات کے معنی مکمل ہوتے ہیں، اور جہاں دل ٹوٹ کر بھی جڑ جاتے ہیں۔