• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانوں نے جنگل میں ان گنت صدیاں گزاریں اور پھر رہن سہن کیلئے بستیاں انتخاب کیں۔ اسلئے کہ جنگل میں طاقت کا قانون کمزور کیلئے ہر سانس میں خوف لیے تھا۔ بارش، طوفان، زلزلے، برفانی سردی اور جھلستی دھوپ جیسے مظاہر فطرت انسان کے اختیار سے باہر تھے۔ وسائل کی قلت ایک مستقل مسئلہ تھی۔ رنگ، نسل، قبیلے، عقائد اور رسم و رواج کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم سے اکثریت کیلئے زندگی اجیرن تھی۔ انسانوں نے پیداواری معیشت پر جنگ و جدل کو ترجیح عطا کر رکھی تھی۔ غلامی کا ادارہ اور عورتوں پر مردانہ بالادستی اس تقسیم کی بدترین مثالیں تھیں۔ اٹھارہویں صدی کا اختتام ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ صنعتی انقلاب شروع ہو رہا تھا۔ روشن خیالی کی تحریک نے انقلاب فرانس کو جنم دیا تھا۔ بحر اوقیانوس کے پار امریکا نے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی کا جوا اتار پھینکا تھا۔ یہ خیال عام ہو رہا تھا کہ پرانی دنیا کا کہنہ نمونہ منہدم کر کے ایک نئی اور بہتر دنیا کا نقشہ مرتب کیا جا سکتا ہے۔ تب دنیا کی کل آبادی ایک ارب تھی۔ 1798 ء میں برطانیہ کے ایک صاحب فکر تھامس مالتھس نے An Essay on the Principle of Population کے عنوان سے ایک مختصر سی کتاب لکھی جس میں یہ انقلاب آفریں خیال پیش کیا گیا تھا کہ غذا اور دوسرے وسائل میں اضافہ ریاضیاتی شرح سے ہوتا ہے جبکہ انسانی آبادی اقلیدس کے اصول پر بڑھتی ہے چنانچہ انسانوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے آبادی کے پھیلاؤ کو ضابطے میں لانا ضروری ہے۔ مالتھس ماہر معیشت ہونے کے علاوہ پادری بھی تھا چنانچہ اس نے آبادی پر قابو پانے کیلئے اخلاقی انضباط کی تجویز دی۔ اسکے باوجود چرچ نے مالتھس کے خیالات کو خدائی احکامات میں مداخلت قرار دیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے سولہویں صدی میں کوپرنیکس اور سترہویں صدی میں گلیلیو کے خیالات پر کلیسا نے احتساب کیا تھا۔ 19ویں صدی میں صنعتی معیشت کی منطق ناقابل مزاحمت تھی۔ اس صدی کے تین بنیادی سوال تھے۔ غلامی ناجائز اور ناقابل قبول ظلم ہے، عورتوں سے امتیازی سلوک ناانصافی ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی پر مذہبی پیشواؤں کی بجائے طبی اور معاشی ماہرین سے رہنمائی لینی چاہئے۔ 19ویں صدی علم، ایجاد، دریافت اور تخلیق سے عبارت تھی۔ کارل مارکس، ڈارون اور فرائیڈ نے انسانی سوچ کا دھارا بدل ڈالا۔ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں دو عالمی جنگوں، قحط اور وبائی امراض کے باوجود دنیا کی آبادی دو ارب کو پہنچ چکی تھی جو ایک صدی بعد آج آٹھ ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔1947 ءمیں امریکا کی آبادی 15کروڑ تھی جو اب 34 کروڑ ہے۔ تب نوآبادیوں کو منہا کر کے برطانیہ کی آبادی پانچ کروڑ تھی جو آج سات کروڑ ہے۔ اس برس مغربی پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 40 لاکھ تھی جو آج ساڑھے پچیس کروڑ کو پہنچ رہی ہے۔ پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ تاہم پاکستان سے زیادہ آبادی رکھنے والے چار ممالک کا رقبہ پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے۔ صرف انڈونیشیا کی مثال لیجیے۔ پاکستان کا رقبہ 9لاکھ مربع کلومیٹر ہے جبکہ انڈونیشیا کا رقبہ 19لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان میں ہر روز اٹھارہ ہزار سے زائد بچے پیدا ہوتے ہیں جبکہ پانچ ہزار اموات واقع ہوتی ہیں۔ گویا ہر چوبیس گھنٹے بعد آبادی میں 13ہزار کا اضافہ ہوتا ہے۔ آبادی کی اس شرح نمو سے تعلیم، صحت اور روزگار کی ضمانت دنیا کی کوئی حکومت نہیں دے سکتی۔ پاکستان میں آبادی کی شرح نمو 2 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ معیشت میں پھیلاؤ کی شرح بھی کم و بیش یہی ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں آبادی کی شرح نمو ایک فیصد سے کم ہے اور معیشت 6.5 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی ہے۔ پاکستان میں ایک ہزار میں سے 54شیرخوار بچے اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے مر جاتے ہیں۔ ایک لاکھ حاملہ ماؤں میں سے 200موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ہر سال ایک کروڑ 27لاکھ حمل ٹھہرتے ہیں جن میں ساٹھ لاکھ حمل غیر ارادی یا عمر کے نامناسب حصے میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ مائیں خون کی کمی اور بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک ہزار شہریوں کیلئے ایک ڈاکٹر اور ہسپتال کے کم از کم پانچ بستر درکار ہیں۔ ہمارے ہاں تقریباً آٹھ ہزار شہریوں کیلئے ایک ڈاکٹر ہے اور دو ہزار شہریوں کیلئے ایک بستر دستیاب ہے۔ پاکستان میں قدرتی وسائل کا یہ عالم ہے کہ ہم توانائی کی ضروریات کا پچاس فیصد حصہ درآمد کرتے ہیں۔ ہماری معیشت ترسیلات زر کے کچے دھاگے سے بندھی ہے۔خوش آئند بات ہے کہ ملک کے ایک موقر صحافتی ادارے نے گزشتہ ہفتے آبادی پر دو روزہ مشاورتی اجلاس منعقد کیا جس میں حکومتی وزرا، ریاستی حکام اور غیر ملکی ماہرین کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس موقع پر ایک سیشن میں مذہبی علما سے بھی رہنمائی لی گئی۔ وفاقی وزیر اطلاعات کے ہمراہ چار صاحبان عمامہ اور جبہ تشریف فرما تھے۔ افسوسناک بات ہے کہ کسی ایک مذہبی پیشوا نے معاشی اور تمدنی دلائل کی بنیاد پر ضبط آبادی کی حمایت نہیں کی۔ البتہ یہ ملفوف دلیل پیش کی گئی کہ ’طبی بنیادوں پر ماں یا بچے کی زندگی کو خطرہ ہو تو خاندانی منصوبہ بندی سے رجوع کیا جا سکتا ہے‘۔ یہ دلیل سو برس پہلے کے اس مکالمے کی بازگشت ہے کہ ’بچیوں کی تعلیم اچھی مائیں بنانے میں مدد دیتی ہے‘۔ گویا تعلیم بطور انسان ایک عورت کا حق نہیں تھا۔ آج وہ دلیل اوندھے منہ پڑی ہے۔ ہمیں اسلئے اپنی آبادی پر قابو پانے کی ضرورت ہے کہ ہم اتنی زیادہ آبادی کیلئے تعلیم، صحت، شہری سہولتوں اور روزگار کے وسائل نہیں رکھتے۔ آبادی کے عفریت پر قابو پائے بغیر عوام کی غربت دور نہیں ہو سکتی۔ اس کیلئے ان علما کی رائے مستندکیونکر ہو سکتی ہےجو جدید معیشت، ٹیکنالوجی اور سیاسی حرکیات سے نابلد ہیں۔ یہ طبقہ عقیدے کی بنیاد پر ملکی بندوبست استوار کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اپنی سلامتی اور ترقی کیلئےجمہوری مکالمے اور جدید علوم کے ماہرین سے استفادے کی ضرورت ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ سیدھی بات کی جائے کہ ہمیں شعوری طور پر ضبط حمل اور خاندانی منصوبہ بندی کو اہم ترین قومی ترجیح قرار دینا چاہئے ۔

تازہ ترین