ٹیکنالوجی کا تیز رفتار سفر ہر لمحے دنیا میں تبدیلیاں لارہا ہے۔بینکاری کا نظام جس میں چند عشرے قبل ایک چیک کیش کرانے کے لئے ٹوکن حاصل کرنے سے رقم لینے تک کئی دلچسپ مرحلوں کا سامنا ہوتا اور خاصا وقت صرف ہوتا تھا اب سکڑ کر کمپیوٹرکے ایک ’’ کلک‘‘ کے ساتھ ہی ادائیگی کے مرحلے تک آگیا ہے۔ رقم گننے تک کے لئے مشینیں استعمال ہورہی ہیں، ٹیکنالوجی اور تہذیبی تبدیلیوں کے موجودہ مرحلے میں دنیا’’ کیش لیس معیشت‘‘ کی طرف بڑھتی نظر آرہی ہے جس میں خریداری کے لئے رقم ساتھ لیکر جانے سے لیکر رقم گننے تک کاکوئی جھنجھٹ نہیں۔ رہزنی کے خطرات وامکانات بھی کم ہوگئے ہیں مگر ’’ عقل عیارہے سوبھیس بدل سکتی ہے‘‘۔ عالمی منصوبہ سازوں اور دنیا بھر کی حکومتوں کو معاملات کے تمام ممکنہ پہلوؤں کو سامنے رکھ کر حکمت عملی بنانا ہے۔ تبدیلی ایک فطری عمل ہے۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ جو ملک اور معاشرے اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ چلیں گے یا بہتر حکمت عملیوں کے ساتھ مزید آگے بڑھنے کے لئے کوشاں رہیں گے وہ فائدے میں رہیں گے اور پیچھے رہنے والوں کے پاس بھی اس کے سوا چارہ نہیں رہے گا کہ وہ وقت اور حالات کے مطابق گھسٹنے کی کوششیں کریں۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا دور کہلانے والے موجودہ منظر نامےنے ہر میدان میں تیز رفتاری سے نتائج نمایاں کئے ہیں ۔پاکستان میں موجودہ حکومت کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات واقدامات اور وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے معیشت کو ڈیجیٹل بنانے سے متعلق اجلاسوں کی صدارت و ہدایات اس وژن کا برملا اظہار ہیں کہ ہم فوری فیصلوں اور بھرپور عملی جدوجہد کے ذریعے ان ملکوں کی اگلی صف میں شامل ہونے کے خواہاں ہیں جو جدید تر ٹیکنالوجی کے ذریعے مختلف میدانوں میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسلام آباد کےکیش لیس بازار،جائیدادوں کی خریدوفروخت کو دھوکہ دہی سے پاک کرنے کے ایک کلک والے ڈیجیٹل منصوبے ، پنجاب میں نافذ زمینوں پر قبضے ختم کرانے کا نیا پورٹل سسٹم، ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر کے ذریعے ڈیجیٹل آئی ڈیز بنانے کی تیاریاں اسی سوچ اور عزم کا اظہار ہیں۔ اس دور کی معیشت کا ایک اہم پہلو کرپٹو کرنسی اور کرپٹو ٹریڈنگ ہے۔ ’’پاکستان ورچوئل ایسٹس ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ کے قیام کی صورت میں ورچوئل کرنسی کے محفوظ استعمال کی طرف پیش رفت کا اشاریہ اور اتھارٹی کے چیئرمین بلال بن ثاقب کی واشنگٹن میں منعقدہ اہم عالمی کانفرنس میں شرکت عالمی برادری کو واضح پیغام ہے کہ ہم ڈیجیٹل اثاثوں کے لین دین کے اس جدید نظام کی طرف بڑھنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں اور نئے عہد کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔ چند روز قبل اسلام آباد میں ڈیجیٹل اثاثوں سے متعلق خصوصی اجلاس میں عالمی سطح پرکام کرنے والی ایکس چینج کمپنیBininceکے گلوبل سربراہ کی سرکردگی میں آنے والی ٹیم، اسٹیٹ بینک آف پاکستان سمیت ملک میں کام کرنے والے ممتاز بینکوں کے صدور اور اعلیٰ افسران کی شمولیت سے واضح ہوگیا کہ پاکستان ورچوئل کرنسی کا نیا نظام اپنانے کے لئے نہ صرف تیار ہے بلکہ اس باب میں مناسب ترین فیصلوں اور اقدامات کی طرف بڑھنا چاہتا ہے۔
ڈیجیٹل یا ورچوئل اثاثے جنہیں بٹ کوائن کہاجاتا ہے، ایسی ڈیجیٹل رقم ہے جو صرف انٹر نیٹ پر موجود ہوتی ہے، یہ نہ ہاتھ میں پکڑی جاسکتی ہے، نہ بینک سے نوٹ کی صورت میں نکالی جاسکتی ہے۔ بس الیکٹرانک روپ میں رہتی ہے۔ سب سے پہلی بٹ کوائن 2009سے شروع ہونے والا یہ غیر مرکزی کرنسی کا نظام ہزاروں کمپیوٹروں کے ذریعے چلتا ہے۔ اس لئے کرپٹو کرنسی کوبلاک چین نیٹ ورک کہاجاتا ہے کرپٹو کرنسی کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ لوگ ان کو منافع حاصل کرنے کے لئے اسی طرح خریدتے اور بیچتے ہیں جس طرح بہت سے لوگ سستی قیمت ہونے پر سونا، ڈالر یاکوئی اور چیز خریدتے اور قیمت بڑھنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ مناسب وقت پرانہیں فروخت کردیاجائے۔ نرخوں کا یہ اتار چڑھاؤ مانگ بڑھنے یا کم ہونے پر منحصر ہوتا ہے۔ مرکزی نظام کی غیر موجودگی کے باعث اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جرائم پیشہ افراد یا گروہ اس نظام کا غلط استعمال کرسکتے ہیں اس لئے بہت سے ممالک اس بارے میں قانون سازی کررہے ہیں۔
اسلام آباد میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور پاکستان ورچوئل ریگولیٹری اتھارٹی(Pvra) کےچیئرمین بلال بن ثاقب کی مشترکہ صدارت میں منعقدہ اجلاس میں حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ وہ کرپٹو ٹریڈزکو محدود وقتی ایمنسٹی دینے پر غور کررہی ہے۔ اس وضاحت کی ایک وجہ بینکوں کی یہ شکایت ہے کہ پاکستان میں( قانونی ضابطوں کی غیر موجودگی میں )کرپٹو کرنسی استعمال کرنے والوں کی وجہ سے انہیں سالانہ250ارب ڈالر کے نقصانات وخدشات کا سامنا ہے جبکہ ایک بڑی گلوبل کرپٹو ایکس چینج کمپنی کا یہ موقف سامنے آیا کہ صرف اس کے پلیٹ فارم پر17.5ملین پاکستانیوں کا رجسٹر ہونا اور ان کے ورچوئل ورثے کا پانچ ارب ڈالر ہونا پاکستان کی جی ڈی پی بڑھانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے پاکستانی صارفین کا سالانہ ٹرن اوور250ارب ڈالر کےلگ بھگ ہے جبکہ دیگر 30کمپنیوں کے صارفین کا ڈیٹا اس کے علاوہ ہے۔ دلیل پیش کی گئی کہ اگر ان ورچول اثاثوں کو ریگولیٹ کرکے ضوابط کااطلاق کیا گیا تو ملک میں’’اکنامک ایکٹوٹی‘‘ (یا بازار میں پیسے کے بہاؤ کی صلاحیت )بڑھے گی جس سے قرض کے حصول ،ترسیلات زر اور روزگار کے مواقع بڑھانے میں آسانی رہے گی۔ حکام کی جانب سے آنے والی کرپٹو ٹریڈز کو محدود وقتی ایمنسٹی کی تجویز کو مبصرین2018اور سال 2025ء میں آنیوالے بعض بیانات، کرپٹو ٹریڈ کی حیثیت کے تاحال ’’گرے زون‘‘ میں ہونے اور کانفرنس کے مقاصد کے حوالے سے موزوں راستے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ توقع کی جانی چاہیے کہ مذکورہ اجلاس میں زیر غور آئی تجاویز اور مشاورت کےحوالے سے پاکستان کو اپنے معاشی حالات اور جغرافیائی ضروریات کے تقاضوں سے ہم آہنگ ضابطے بنانے کے علاوہ موثر مشینری کی جلد تشکیل میں مدد ملے گی۔ یہ بات بہر صورت ملحوظ رکھنے کی ہے کہ ہمیں اپنی ٹیکنالوجی میں جدت اور تخلیق کے تقاضے ملحوظ رکھنا ہونگے۔ ملک کے معاشی مفادات سامنے رکھ کر ایک مضبوط اور مستقبل بین ریگولیٹری ماحول بنانا ہے اور اس عزم کے ساتھ ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنا ہے کہ ہمیں اپنے عزیزوطن کو ترقی یافتہ ممالک کی صف اول میں لے جانا ہے۔