میرے ہم وطنو اور ناصرہ زبیری تمہیں کس نے بتادیا تھا کہ بہت سی خواہشیںجو خراشیں بن جاتی ہیں، زندگی کی اس منزل پہ آکے اپنا وجود ظاہر کرتی ہیں، جب سوچ کی دہلیز پہ اگلا قدم لیتے ہوئے پیچھے سے آواز آتی ہے یہ تم نے ناصرہ! ڈیڑھ گھنٹہ بیانیہ سنا ،تو اٹھ کر میرے گلے لگ کر کہنے لگی آپا اب کیا بہنیں بھی بھائی سے نہیں ملیں گی یہ کیسا دور آگیا۔ میں ناصرہ کو پیار کرکے اسکی شاعری پڑھتے ہوئے بتاتی ہوں ۔ اسنے بھی نبھانا تھاکہاں وعدہ الفت، فوراً پلٹ کر ناصرہ نے کہا ’’ ایک بار کہا میں نے بھی تاکید نہیں کی‘‘۔ ذرا اس مصرعے کی وضاحت تو کرو، جذباتی طور پر نہیں، پاکستان کے سیاسی تناظر میں۔ وہ ذرا جھجکی نہیں ،کہا آپا جسکی سپریم کورٹ میں تین ججز بدتمیزی اور ہاتھا پائی کی نوبت تک پہنچ جائیں۔ پارلیمنٹ کے لئے کہہ دیا گیا ہے۔ کوئی بھی ممبر سیاسی بات نہیں کرسکتا ورنہ اسکی ممبر شب جائیگی ۔ تو ہم کس قانون کے تحت یہ سب حرکتیں کررہے ہیں۔ میں نے ناصرہ کو اسکا شعر سناتے ہوئے کہا ’’ ہم تو بس تولتے ہیں دل کے برابر دل ہی۔ آپ دنیا کی تجارت میں لگے رہتے ہیں‘‘۔ یہ سارے سیاست دان توہیں بھی ناقابل ذکر، مگر میں کل رات سے سو نہیں سکی کہ اسلام آباد میں ایک نابالغ گاڑی چلا رہا تھا۔ اناڑی تھا سامنے دولڑکیاں سکوٹی چلاتی آرہی تھیں۔ بچے سے گاڑی نہیں سنبھلی وہ دونوں جان سے گئیں۔ حادثہ تو تکلیف دہ ہے مگر ہر روز ایسے حادثات ہوتے ہیں۔ تم پریشان کیوں ہو۔
ناصرہ نے بتایا کہ کل ان دونوں لڑکیوں کے خاندانوں نے صلح ایسے کی کہ چار دن سے قید نابالغ کو رہا بھی کروادیا گیا اور دونوں خاندانوں نے کون سے صبر کی سل اپنے سینے پر رکھی اور واپس چلے گئے۔ میں نے پوچھا ناصرہ! کیا یہ بھی ریمنڈ ڈیوس والے قصے کو دہرایا گیا۔وہاں توتین خاندانوں میں رقم تقسیم ہوگئی تھی۔ ناصرہ زبیری بہت اچھی شاعرہ اور مشاعرے کی بہت اچھی منظم بھی ہے۔ اسے معلوم ہے خواتین شاعرات ’بولونا‘ قسم کی ردیف نکالیں تو پھر ادھر ادھر سے آوازیں تو اٹھتی ہیں۔ اچھا بتاؤ ناصرہ! تم کیسےنظم سلیقے سے لکھ رہی ہو۔تم نے کتنی آسانی سے لکھ دیا انوکھے قبیلے کی کتھا’ ہم عجیب قبیلے کے لوگ ہیں ؍جن مردہ قدروں کودفنا دینا چاہیے ؍انہیں قبر نہیں دیتے؍ ساتھ لیے پھرتے ہیں‘۔ یہ تو مکمل نظم کا پیراہن لگتا ہے۔ اب میںنےناصرہ کی کتاب سامنے رکھ کر ، ذرا کھل کر گفتگو کرنے کیلئے اسے دھوپ میں اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ ناصرہ نے ہنستے ہوئے حوصلے سے کہا آپ کہیں گی ، تم نے اس کتاب میں معاشرے کے اور اپنے راز بہت لطیف لہجے میں بیان کیے ہیں۔ ایک طرف ذہنی پختگی کا اظہار کرتی ہو۔ دوسری طرف آرائش وزیبائش سے، اپنی عمر اور احساسات کو چھپانے کی کوشش کرتی ہو۔ دیکھو زہرہ آپا بھی ہیں، زبیدہ مصطفیٰ بھی تھی، پتا نہیں میں تمہیں آئینہ دیکھنے سے منع نہیں کررہی ۔تم نے خود کہا ہے ’’ آواز بچ گئی تو ہم سب یہیں رہینگے؍ خاموش رہ گئے تو زندہ نہیں رہیں گے۔ اور پھریہ بھی کہتی ہو۔ خاموشیوں کی زد سے آواز کو بچاؤ۔
آج جب سچ بولنا منع ہے۔ڈھونڈو استعارے، پرانے ادب سے باتیں ، تمہیں یاد دلاؤں ہمارے بڑے شاعر قیوم نظر پیرس گئے تو سارتر سے ملنے گئے۔ وہ گھبرائے نہیں کہ جب اس نے پوچھا، آپ کے ملک میں تو سیاسی بحران ہے۔ آپ اس پر کیا کہتے ہیں۔ قیوم نظر صاحب نے کہا میں تو ادیب ہوں شعر لکھتا ہوں، سیاست میرا مسئلہ نہیں۔ سارتر نے کہا ’’ آپ خوش رہے، جائیے اپنی شاعری کرتے رہیں‘‘۔ یہیں مجھے یہ لطیفہ بھی یاد آیا۔ کل اخبار میں دیکھا۔ امریکی سفیر ہمارے وزیروں کو سمجھا رہیکہ اسمگلنگ کیسے روکی جا سکتی ہے۔ ہم پرآج یہ راز بھی کھل رہا ہے کہ منشیات کی اسمگلنگ تو عالمی مسئلہ ہے۔ ویسے میری کمزور یادداشت نے بتایا کہ آپ نے توصرف قیوم نظر کا حصہ لکھا ہے ضیا الحق نے 4 اپریل کو بھٹو کو غلط پھانسی دی اور 11؍اپریل کو ادبی اجتماع کیا۔ جس میں قاسمی صاحب سے لے کر سب آئے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ادبی تحریروں کے اقتباسات بھی سنائے جس میں ایک صاحب کے شعر بھی تھے جنہیں فوراً دل کا دورہ پڑ گیا۔
ناصرہ زبیری ! تم خوش نصیب ہو کہ تم نے وہ زمانے نہیں دیکھے مگر تم نے یہ تو دیکھا کہ پہلے ریٹائرمنٹ کے آرڈر ہوئے، پھر اس کے چھ دن بعد، ہیڈ آف فورسز کے آرڈر اچانک ٹی وی کی خبریں روک کر سنا دیئے گئے۔ اس کی وضاحت بھی نہیں کی گئی۔خیر چھوڑو تم نے جس حد تک معاشرے کی بحرانی کیفیت کو غزل اور نثری نظم کے پیرائے میںبیان کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ مجھے ناصر عباس نیر کی مشکل تحریر بالکل سمجھ میں نہیں آئی اور نہ ہی افتخار عارف کی حاشیہ آرائی کہ وہ تو سینئر کی حدیں پار کرکے اولیا ہو چکے ہیں ۔ ان سے معذرت اور ناصر کو نصیحت کہ تم بہت لائق ہو اور ناصرہ کے شعری سفر کا تجزیہ کرتے ہوئے، میں اور تم کا تقابل بھی کیا ہے۔ تمہیں اس شعر نے کیوں نہیں پکڑا۔
ہم کسی اور کے دربار میں تھے کچھ پہلے
اب کسی اور کی خدمت میں لگے رہتے ہیں
اور آگے تم نے ہی اشارہ کیا ہے:
برائے جرم سیاست بھی قتل کرتی ہے
خطا، معاف، عدالت بھی قتل کرتی ہے
بہت خوشی ہوئی ناصرہ اور نیئر عباس کی شاعری پڑھ کر۔ ناصرہ کے یہاں خاصےموضوعات ہیں مگر سوال یہ ہے کہ بال سر سے نوچیں مخاطب کون!