• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یارِ غار و مزار، جانشینِ رسول اکرم ﷺ حضرت ابو بکر صدیقؓ

مولانا محمد الیاس عطار قادری

خلیفۂ اوّل سیّدنا صدیق اکبرؓ عام الفیل کے اڑھائی سال بعد اور سرکار مدینہﷺ کی ولادت کے دو سال اور چند ماہ بعد پیدا ہوئے، آپؓ کی جائے پرورش مکہ مکرمہ ہے، حضرت صدیق اکبرؓ بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ نسب کے اعتبار سے آپ کا سلسلہ چھٹی پشت میں حضور نبی کریم ﷺسے جا ملتا ہے۔ والدین نے آپؓ کا نام عبد الکعبہ رکھا، لیکن رسول اللہ ﷺنے اسے عبداللہ سے تبدیل فرمایا۔ کنیت ابو بکر اورلقب صدیق تھا۔

زمانہ جاہلیت میں آپؓ کا شمار رئوسائے قریش میں ہوتا تھا اور دیگر سردار آپؓ سے مختلف اُمور میں مشورے کرتے تھے۔ آپؓ کا پیشہ تجارت تھا، آپؓ صرف تجارت کی غرض سے باہر تشریف لے جاتے تھے، اپنے اعلیٰ اخلاق، صاف گفتگو، زبان کی سچائی اور ایمانداری سے آپؓ نے بےحد نفع کمایا اور تھوڑے ہی عرصے میں آپؓ کا شمار مکہ کے معروف تاجروں میں ہونے لگا۔

جب اسلام کا پیغام ملا تو اسلام کو دُنیا پر ترجیح دی اور صرف اسلام کےلیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا دِل پہلے ہی ایمان قبول کرنے کی صلاحیت سے پوری طرح معمور تھا، صرف دعوت ملنے کی دیر تھی اور جو شمع جلنے کیلئے بیتاب تھی فوراً جل اٹھی‘ چنانچہ حضرت محمدبن عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن حصین تمیمیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’میں نے جس شخص کو بھی اسلام کی دعوت دی اس نے تردد اور تھوڑا بہت غوروفکر ضرور کیا، مگر ابو بکر صدیقؓ ایسے ہیں کہ جب میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے بغیر کسی تردد اور غوروفکر کے فوراً کلمہ پڑھ لیا اور اسلام میں داخل ہو گئے۔‘‘

آپؓ نے جیسے ہی اسلام قبول فرمایا اور اس کی تبلیغ کھلے عام شروع کی تو مشرکین مکہ آپؓ کے جانی دشمن بن گئے، آپ کو اذّیت میں مبتلا کرنا ان کے نزدیک ایک ضروری اَمر تھا، لیکن آپؓ نے رسول اللہ ﷺکی حفاظت اور ان کی حمایت و مدد کو اساس ایمان قرار دے رکھا تھا اور یہ اساس ہی حقیقی ایمان ہے، یقینا ًسچا اور حقیقی مسلمان وہی ہے جو رسول اللہ ﷺکی محبت کے مقابل اپنی جان، مال، اولاد وغیرہ کسی چیز کی قطعاً پروا نہ کرے اور نہ ہی دُنیا کی ظاہری عزت و وجاہت اس کی راہ میں حائل ہو، آپؓ کا یہ بے مثال کردار آپؓ کی بے نظیر جرأت و بہادری ہے جس کاآپ نے ہر موقع پر شاندار مظاہرہ فرمایا۔ 

اللہ عزوجل کی وحدانیت کا اعلان کرنے کے بعد جب مشرکین نے آپؓ کو اور حسن ِاخلاق کے پیکر، محبوب رب اکبر ﷺکو اذیتیں پہنچانا شروع کیں اس وقت آپؓ نے مشرکین کی طرف سے پہنچائی جانےوالی تکالیف کو بڑے صبروتحمل کے ساتھ برداشت کیا۔ آپؓ ایمان لانے کے بعد کفار کے ظلم استبداد کے مقابلے میں کوہِ گراں کی مانند ڈٹے رہے۔ 

آپؓ نے ہر معاملے میں صداقت کا عملی مظاہرہ کیا، حتیٰ کہ واقعۂ معراج اور آسمانی خبروں وغیرہ جیسے معاملات کو جن کو اس وقت کسی کی عقل نے تسلیم نہیں کیا، ان میں بھی فوراً تصدیق فرمائی۔ سرکار مدینہ ﷺکی تمام معاملات میں جیسی تصدیق آپؓ نے کی ویسی کسی نے نہیں کی، اس لئے آپؓ کو صدیق اکبر کہا جاتا ہے۔

آپؓ نہایت ہی خشوع و خضوع سے نماز ادا کرنے کا اہتمام کیا کرتے اور عبادت نہایت احسن انداز میں ادا کرنے کے شائق تھے۔ آپؓ کا حددرجہ تقویٰ و اخلاص تھا کہ فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی گرمیوں میں رکھتے تھے۔ آپؓ نہایت ہی غم خوار اور قلبی طور پر اس قدر رحم دل اور حسّاس تھے کہ کسی مسلمان کو بڑی مصیبت تو کجا چھوٹی سی تکلیف میں دیکھنا بھی آپؓ کو گوارہ نہ تھا‘ یہی وجہ ہے کہ آپؓ نے کئی ایسے مسلمان غلاموں کو اپنی ذاتی رقم ادا کر کے آزاد کروایا جو اپنے آقا کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنتے تھے۔

آپؓ ہجرت کے وقت حضور نبی کریم ﷺکی مصاحبت میں رہے‘ سفر کے دوران ہر قدم پر آپؓ نے حضور نبی کریم ﷺکا بھرپور انداز میں ساتھ دیا۔ ہجرت کے بعد مسجد نبوی کے لیے زمین خرید کر وقف کی۔ طائف، بدر، اُحد، بنو مصطلق، حدیبیہ، خیبر، حنین اور فتح مکہ کے معرکوں میں رسالت مآب ﷺکی معیت کا شرف ملا اور ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ سن ۹ھ میں آپؓ کو امیرالحج مقرر کیا گیا‘ حضور نبی کریم ﷺکی علالت کے دوران امامت کا منصب ِ عظیم حضرت ابو بکر صدیقؓ کو نصیب ہوا۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے فہم و فراست کے سبب حضور نبی کریم ﷺآپؓ سے امور مسلمین میں اکثر مشاورت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت سیّدنا ابوبکر صدیقؓ انتہائی نرم مزاج تھے، اگر ان کی اپنی ذات کا معاملہ ہوتا تو عفوودرگزر سے کام لیتے اور کسی کو ذرّہ برابر تکلیف نہ پہنچاتے، لیکن اگر معاملہ پیارے آقا ﷺ، عظمت اسلام یا مسلمانوں کا ہوتا تو غیرت جوش میں آ جاتی اور قطعاً کسی چیز کی پروا نہ کرتے، بلکہ باطل کے سامنے سینہ سپرہوجاتے اورڈٹ کر اس کا مقابلہ فرماتے۔

راہِ خدا میں ایثار و قربانی میں آپؓ پر کوئی بھی سبقت نہ لے جا سکا۔تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺنے رومی حملے کے انسداد کیلئے انفاق فی سبیل اللہ کا ارشاد فرمایا تو حضرت عمرؓ نصف مال و متاع لےکر حاضر ہوئے، مگر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے گھر کا سارا اثاثہ پیش کر دیا‘ جب رسول اللہ ﷺنےفرمایا ! ’’اپنے اہل و عیال کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟‘‘ تو عرض کیا! ’’اُن کیلئے اللہ اور اس کا رسول ﷺہی کافی ہیں‘‘۔ حضرت عمرفاروقؓ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے اور کہنے لگے کہ ’’میں کبھی بھی ابوبکر صدیقؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتا‘‘۔

حضور سیّدعالم ﷺکے دنیائے فانی سے ظاہری طور پر پردہ فرمانے کے بعد 13ربیع الاوّل کومہاجرین وانصارصحابہؓ نے باہمی اتفاقِ رائے سے آپؓ کو پہلا خلیفہ منتخب کرلیا۔ حضور نبی کریم ﷺکے وصال کے بعد تمام صحابۂ کرام ؓ شدتِ غم سے نڈھال تھے اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا ہو گا، ایسے میں آپؓ نے صحابۂ کرامؓکے بکھرے ہوئے جذبات کو یکجا کیا اور شیرازۂ اسلام کو منتشر ہونے سے بچایا۔ 

آپؓ نے مانعین زکوٰۃ کےخلاف تمام خطرات کے باوجود جہاد کیا‘ آپؓ کی خلافت راشدہ کے پہلے سال کا زیادہ تر حصہ مرتدین اور باغیوں کی بغاوت و ارتداد کو ختم کرنے میں گزرا‘ بغاوت و ارتداد کےخلاف جنگ و جہاد کے ساتھ ساتھ مملکت کے انتظامی امور کی طرف بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے توجہ مبذول کئے رکھی اور مدینہ منورہ میں ایک بہترین نظام قائم فرما دیا۔ 

آپؓ نے جھوٹے مدعیانِ نبوت کےخلاف تلوار اٹھا کر اُمت مسلمہ پر قیامت تک کیلئے احسان فرمایا کہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہﷺ کے بعد جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے وہ کاذب و دجال ہے‘ اس کےخلاف مسلمانوں کو جہاد کرنا چاہئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ 22 جمادی الثانی 13 سن ہجری میں اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے۔

اسپیشل ایڈیشن سے مزید