پروٹین انسانی جسم کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہ وہ غذائی جزو ہے، جس کے بغیر جسم کی ساخت، کارکردگی اور نشوونما ممکن نہیں۔ ہمارے جسم کے پٹّھے، ہڈیوں کے ٹشوز، خون کے خلیے، جِلد اور ہارمونز، سب کسی نہ کسی سطح پر پروٹین کے محتاج ہیں اور یہ نہ صرف جسم کو توانائی فراہم کرتے ہیں بلکہ جسم میں خلیات کی مرمت، زخموں کے ٹھیک ہونے، جسم کے مدافعتی نظام (Immune System) کی مضبوطی اور نئےخلیات کی تشکیل میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
پروٹین کے بغیر نہ تو جسم کی نمو ممکن ہے اورنہ ہی صحت کا تسلسل برقرار رہ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیش تر ماہرینِ غذائیت (Dietitians) پروٹین کو متوازن غذا کا سب سے اہم جزو قرار دیتے ہیں۔
اگرچہ پروٹین ایک لازمی غذائی جزو ہے، مگر آج کے دَور میں اس کےاستعمال کےحوالے سے جو رجحانات دیکھنے میں آ رہے ہیں، وہ اکثر غیر سائنسی اورنقصان دہ ہیں۔ پروٹین کی ضرورت اور اس کے فیشن میں بہت بڑا فرق ہے۔ سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک عام بالغ انسان کو اپنے جسمانی وزن کے لحاظ سے روزانہ تقریباً 0.75 گرام فی کلوگرام پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔
یعنی اگر کسی شخص کا وزن 70 کلو ہے، تو اس کے لیے تقریباً 55 تا 60 گرام پروٹین روزانہ کافی ہے، جو دودھ، دہی، گوشت، انڈے یا دالوں سے بآسانی حاصل کی جاسکتی ہے، مگر موجودہ دَور میں نوجوانوں خصوصاً فِٹنس جِم (Fitness Gym) جانے والے افراد یہ سمجھتے ہیں کہ جتنا زیادہ پروٹین لیا جائے، اُتنی زیادہ طاقت حاصل ہوگی اور پٹّھے مضبوط ہوں گے اور یہی غلط فہمی جسمانی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں فٹنس کلچر ایک سماجی رجحان کی شکل اختیار کرچُکا ہے۔ سوشل میڈیا پر’’پرفیکٹ باڈی‘‘ کے ماڈلز، فلمی ستاروں اور فِٹنس انفلوئنسرز (Fitness Influencers) نے نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ تصور چسپاں کر دیا ہےکہ کام یابی، کشش اورخُوداعتمادی صرف مضبوط اور عضلاتی جسم میں ہے۔ اِس سوچ نے نوجوانوں میں ایک نفسیاتی دباؤ پیدا کردیا ہے۔
وہ دوسروں سے اپنا موازنہ کرنے اور جسمانی ساخت کوعزت، پہچان کاپیمانہ سمجھنے لگے ہیں۔ اسی دباؤ میں وہ مصنوعی ذرائع جیسے پروٹین شیک، سپلیمنٹس(Supplements)، حتیٰ کہ بعض اوقات ممنوعہ اسٹیرائیڈز(Steroids) تک کا سہارا لیتے ہیں۔ جِم کلچرمیں پروٹین پاؤڈر کو ایک لازمی جزو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ نوجوانوں کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اگروہ سپلیمنٹس نہیں لے رہے تو ان کی محنت ضائع ہورہی ہے۔
پھر تشہیری صنعت نے بھی اس رجحان کو مزید ہوا دی ہے۔ پروٹین پاؤڈر کی عالمی مارکیٹ اربوں ڈالرز پر مشتمل ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں نوجوانوں کی خواہشات اور کم زوریوں کا فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ اشتہارات میں خُوب صورت، مضبوط جسم والے ماڈلز دکھا کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ سب صرف ایک مخصوص برانڈ کے استعمال کا نتیجہ ہے۔
حقیقت میں یہ ایک منظّم تجارتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد انسانی جسم کی صحت و طاقت نہیں بلکہ منافع کمانا ہے۔ بیش تر برانڈزاپنی مصنوعات کے اجزاء واضح طور پر ظاہرنہیں کرتے، اور اکثر اِن کی پراڈکٹس میں غیرمعیاری یا غیرمحفوظ مادے شامل ہوتے ہیں۔
ایک امریکی تحقیقاتی تنظیم”کلین لیبل پراجیکٹ“ نے 134 مختلف پروٹین پاؤڈرز کا تجزیہ کیا اور یہ انکشاف کیا کہ اِن میں سے ایک بڑی تعداد میں سیسہ، آرسینک، بی پی اے (پلاسٹک سے خارج ہونے والا زہریلا کیمیکل) اور کیڑے مار ادویہ پائی گئیں۔ ان میں سے بعض اجزاء انسانی جسم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں اور لمبے عرصے تک ان کے استعمال سے جگر، گردے، اعصاب اور خون کے نظام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
چوں کہ پروٹین پاؤڈر کو غذائی سپلیمنٹ شمار کیا جاتا ہے، اس لیے ان پر فوڈ اینڈ ڈرگ ریگولیٹری کے سخت قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ صارف کو اکثر معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ دراصل کیا استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان میں صورتِ حال مزید سنگین ہے۔ بڑے شہروں میں درجنوں جِمزایسے ہیں، جہاں تربیت یافتہ انسٹرکٹرز نہ ہونے کے باوجود نوجوانوں کو مختلف سپلیمنٹس تجویز کیے جاتے ہیں۔
اکثر یہ سپلیمنٹس یا تو اسمگل شدہ ہوتے ہیں یا مقامی طور پر تیار کیےگئے غیر معیاری پاؤڈرز، جن کی کوئی لیبارٹری ٹیسٹنگ نہیں ہوتی۔ ان مصنوعات پر وزارتِ صحت یا کسی سرکاری ادارے کی منظوری کی کوئی مُہر موجود نہیں ہوتی۔ نوجوان صرف رنگین پیکنگ، اشتہارات اور انسٹرکٹر کی باتوں پر بھروسا کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ گردوں کے امراض، ہارمونل عدم توازن، جگر کی خرابی اور معدے کے مسائل میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
پروٹین کی زیادتی گردوں کے لیے خاص طور پرنقصان دہ ہے۔ جب جسم میں پروٹین ضرورت سے زیادہ ہوجاتا ہے، تونائٹروجن کی سطح بڑھ جاتی ہے، جسے خارج کرنے کے لیے گردوں کوزیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ وقت کے ساتھ گردے کم زور پڑجاتے ہیں۔
اِسی طرح مصنوعی پروٹین پاؤڈر میں شامل اضافی شکر، کیمیکل اور مصنوعی فلیورز انسولین کے توازن کو بگاڑ دیتے ہیں، جس سے ذیابطیس، موٹاپے اور دل کے امراض کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بعض سستے سپلیمنٹس میں ہارمونل ایجنٹس (Hormonal Agents) یا اسٹیرائیڈز بھی شامل کیے جاتے ہیں، جو وقتی طور پر جسم کو پُھلا دیتے ہیں، مگر بعد میں بانجھ پن، ذہنی دباؤ، نیند کی کمی اور ہارمونل بگاڑ(Imbalance) جیسے سنگین منفی اثرات پیدا کرتے ہیں۔
پاکستان میں اس حوالے سے نہ کوئی واضح قانون موجود ہے، نہ نگرانی کا کوئی فعال نظام۔ مارکیٹ میں درآمد شدہ سپلیمنٹس کی کوئی جانچ پڑتال نہیں کی جاتی۔ وزارتِ صحت اورپاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی ذمّے داری ہے کہ وہ مُلک میں فروخت ہونے والے تمام غذائی سپلیمنٹس کی لیبارٹری ٹیسٹنگ کو لازمی بنائے۔ ساتھ ہی میڈیا پر ایسے اشتہارات کی نگرانی کی ضرورت ہے، جو نوجوانوں کی غیرحقیقی توقعات کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پروٹین پاؤڈر کا استعمال ہر شخص کے لیےضروری نہیں۔ بعض حالات میں، جیسے شدید بیماری، سرجری کے بعد بحالی، یاجسمانی کم زوری میں، ڈاکٹر کی ہدایت پر محدود مقدار میں سپلیمنٹس مفید ہوسکتے ہیں۔ لیکن ایک صحت مند شخص کے لیے قدرتی غذائیں ہی بہترین ذریعہ ہیں۔ دودھ، دہی، انڈے، دالیں، چنے، لوبیا، مچھلی، مرغی، بادام، اخروٹ اور بیج، یہ سب جسم کی پروٹین کی ضرورت کو نہایت محفوظ طریقے سے پورا کرتے ہیں۔
نوجوانوں میں فٹنس کے نام پر پروٹین کا جنون ایک نفسیاتی اور سماجی مسئلہ بن چُکا ہے۔ یہ رجحان انہیں حقیقی صحت سے دور اور ظاہری فریب کے قریب لے جا رہا ہے۔ فٹنس کا اصل مقصد جسم اور ذہن کو متوازن رکھنا ہے، نہ کہ صرف پٹھّے بنانا۔ ایک متوازن غذا، باقاعدہ ورزش، مناسب نیند، اور ذہنی سکون ہی وہ عناصر ہیں، جو جسمانی طاقت کو قدرتی طور پر بڑھاتے ہیں۔
مصنوعی پاؤڈر وقتی تسکین تو دیتے ہیں، مگر طویل مدت میں صحت کے دشمن بن جاتے ہیں۔ تشہیری کمپنیاں نوجوانوں کے احساسِ کم تری اور خواہشات کا فائدہ اٹھا کر انہیں غیرحقیقی خواب بیچ رہی ہیں۔ یوٹیوب، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک پر “فٹنس گرو (Fitness Guru) بنے ہوئے افراد اکثر کسی برانڈ کے اسپانسر ہوتے ہیں اورمالی فائدے کے لیے گُم راہ کن معلومات پھیلاتے ہیں۔
اس جھوٹے تاثر کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں غذائیت سے متعلق آگاہی دی جائے، میڈیا صحت مند طرزِ زندگی کو فروغ دے، اور والدین اپنے بچّوں کو ظاہری حُسن کے بجائے تن درستی کی حقیقی اہمیت سمجھائیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر مُلک میں جہاں نوجوان آبادی کا سب سے بڑا حصّہ ہیں، یہ ضروری ہے کہ انہیں صحت مند طرزِ زندگی کی طرف راغب کیا جائے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ جِمز کے لیے رجسٹریشن نظام متعارف کروائے، ٹرینرز کی تربیت لازمی قرار دے، اور جعلی یا غیر منظورشدہ پروٹین سپلیمنٹس کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر’’حقیقی فٹنس‘‘ کے پیغامات عام کیے جائیں تاکہ نوجوان مصنوعی اشتہارات کے دھوکے میں نہ آئیں۔
آخرکار، بات وہی ہے کہ صحت کا تعلق توازن سے ہے، نہ کہ زیادتی سے۔ پروٹین جسم کے لیے لازمی ہے، مگر اس کی مقدارکا تعین سائنسی بنیادوں پر ہونا چاہیے، نہ کہ اشتہارات یا دوسروں کی نقل پر۔ اگر ہم قدرتی خوراک کو اپنائیں، ورزش کو معمول بنائیں اورذہنی سکون کو ترجیح دیں تو پروٹین شیک یا سپلیمنٹس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
طاقت کا اصل سرچشمہ کوئی پاؤڈر یا بوتل نہیں بلکہ انسان کا نظم و ضبط، صبروتحمل، محنت اور قدرتی توازن ہے۔ یہی وہ اصول ہے، جو نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت کا ضامن بھی ہے۔ (مضمون نگار، پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ اور چیف میڈیکل آفیسر، سروسز اسپتال کراچی، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سندھ ہیں)