کل ایک صاحب کودیکھا جوتین سوئیٹر، ڈبل جرابیں،اونی ٹوپی، دستانے اورگرم چادر اوڑھے ہیٹرکے سامنے بیٹھے یخنی پی رہے تھے اوربڑبڑا رہے تھے کہ ’ہن او سردیاں نئیں رئیاں‘۔ پوچھنے پرپتا چلاکہ ماشاء اللہ طبیعت بھی ٹھیک ہے اورعمربھی کوئی اتنی زیادہ نہیں لیکن سردی سے بچنے کے جتن کررہے ہیں۔ہم لوگ دعائیں کرکرکے سردیاں لاتے ہیں اورپھرسردیوں کو گرمیوں میں بدلنا شروع کردیتے ہیں۔مزیدار سردیاں ہیں، انجوائے کرناچاہیے۔ہروقت ہاتھ پاؤں آگ میں ڈالے رکھنے سے سردیاں ناراض ہوجاتی ہیں۔آپ نے کئی ایسے مردقلندربھی دیکھے ہوں گے جو فل جرسی پہن کر رضائی سر تک اوڑھ کرسوتے ہیں۔گاڑی میں ہیٹر چلانے والوں کوبھی داد دینی چاہیے کہ تازہ ہواکاایک جھونکاتک قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔ایسے لوگ اگست ستمبرمیں ہی گیزرآن کرلیتے ہیں۔انہیں گرم نہیں اُبلتا ہواپانی درکار ہوتاہے۔نہاتے وقت یہ اکثر شاور کی ٹھنڈے پانی والی سائیڈ کھولتے ہی نہیں۔ویسے توانہیں چلغوزے، کاجو، بادام، پستہ اور اخروٹ وغیرہ پسند ہوتے ہیں لیکن کھاتے عموماً مونگ پھلی ہیں۔یہ سردی میں گرمی لگنے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ان کے بس میں ہو تو پیروں میں کوئلے باندھے رکھیں۔صبح بسترسے اٹھنا ان کیلئے کسی اذیت سے کم نہیں ہوتا۔ ایسے ہی ایک سردی کے مارے طالب علم سے استاد نے پوچھاکہ بتاؤ انسان کے سینے میں کتنے دل ہوتے ہیں؟ طالب علم نے کچھ سوچ کرکہا’دو‘۔ استاد بھڑک اٹھا’دو دل کیسے ہوتے ہیں؟‘۔طالب علم جھٹ سے بولا’سرجی! ایک دل کہتاہے بستر سے اٹھ جاؤ، دوسرا کہتاہے چپ کرکے رضائی میں لیٹے رہو‘۔
..........
کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جنہیں توڑ کرلکھا جائے تو عجیب وغریب عبارت بن جاتی ہے۔ سوشل میڈیاپرایک تصویرچل رہی جس میں ایک بیسمنٹ پر’کرائے کے لیے دستیاب ہے‘ کا اشتہار چسپاں ہے لیکن لکھنے والے نے بیسمنٹ کے لفظ کو دوحصوں میں لکھا ہے اور عبارت یوں بن گئی ہے کہ ’بیس منٹ کرائے کے لیے دستیاب ہے۔ایسے ہی کئی لوگ ’ویلکم‘کو ویل کم لکھتے ہیں ا وردوسروں کی علمیت کاامتحان لیتے ہیں۔اسی طرح کئی الفاظ ایسے ہیں جنہیں توڑکرلکھناچاہیے لیکن اکثرلوگ اکٹھا لکھ کر پڑھنے والوں کی دلچسپی کا سامان پیداکردیتے ہیں۔ایسے الفاظ میں زیادہ تر انگریزی الفاظ ہوتے ہیں۔ دیکھئے اگرآپ ’بیوٹی فل‘ لکھیں گے توسب کو سمجھ آجائے گا لیکن اگر یہ دونوں الفاظ ملاکر’بیوٹیفل‘ کردیں توکیاخیا ل ہے کسی دوائی کا نام نہیں لگتا؟۔کئی لوگ اردو کے الفاظ بھی توڑکرلکھتے ہیں اورایسالگتاہے کوئی نامعلوم سالفظ ہے۔علم الاعدادکوعلم ال اعداد لکھیں تو کیسا ہے؟ متفرق کو’مت فرق‘لکھنے والوں کا بھی اپناہی لیول ہے۔ الفاظ جڑے ہوں یاتڑے ہوں ان کی ایک خاص پہچان ہوتی ہے یہ پہچان ختم کردی جائے تو عجیب سا لگتاہے۔
..........
جب سے پنجاب میں چالانوں میں سختی ہوئی ہے ہیلمٹ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے۔ایک اسٹوڈنٹ بتا رہا تھا کہ جو ہیلمٹ پہلے پندرہ سو کا مل جاتا تھااب ساڑھے پانچ ہزار میں مل رہا ہے۔ پتانہیں یہاں قانون حرکت میں کیوں نہیں آتا۔ یہ جوساڑھے پانچ ہزار میں ہیلمٹ مل رہاہے اس کی کوالٹی بھی انتہائی ناقص ہے۔کیا ہی اچھا ہو اگرحکومت اچھی کوالٹی کے ہیلمٹ خودبنوائے اورمناسب قیمت پرمہیاکرے۔ فی الحال تو ہر دوسری سڑک پرناکہ لگا کر موٹرسائیکل سواروں کوروکاجارہاہے۔ یہاں کیا معاملات چل رہے ہوتے ہیں کوئی کچھ نہیں جانتا۔ اگر کوئی موٹرسائیکل سوار ہیلمٹ پہن کر اپنی لائن میں مناسب رفتار سے جارہاہے تواسے روکنے کا کیاجواز ہے؟ ۔ قانون پرعمل کروانے کیلئے لوگوں کوخوفزدہ کرنے کاعمل چھوڑیں اوراسی صورت میں کسی کو روکیں جب وہ قانون کی خلاف وزری کا مرتکب ہو۔دوسری مہربانی یہ کریں کہ لاہور میں ملتان روڈ کوا سکیم موڑکے مقام سے کھولیں تاکہ بدترین ٹریفک سے جان چھوٹے۔یہ سڑک ٹی ایل پی کے احتجاج کے بعد سے بند ہے۔اس مین شاہراہ سے لاہور میں روزانہ لاکھوں گاڑیاں آتی جاتی ہیں لیکن یتیم خانہ تک سنگل روڈ پرٹریفک چلائی جارہی ہے۔جن تاجروں کی دکانیں بند سڑک والی سائیڈ پرہیں وہ روز دہائی دے رہے ہیں کہ ہمارے کاروبار کو ڈوبنے سے بچائیں ا ور دوطرفہ ٹریفک کھولیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسکیم موڑکراس کرنے کے لیے کم ازکم آدھا گھنٹہ چاہیے، وہ بھی اگر زیادہ رش نہ ہو تو۔
..........
دودن پہلے مجھے فون آیا کہ میں فلاں تھانے کا ایس ایچ او بات کررہاہوں۔ہم نے ایک گینگ کو پکڑاہے جس میں آپ کابیٹا بھی شامل ہے۔کال کرنے والے نے میرا اورمیرے بیٹے کا نام بالکل درست فرمایا، پھرکہنے لگا کہ یہ لیں اپنے بیٹے سے بات کریں۔ اس کے بعد ایک روتی ہوئی آواز آئی کہ ’پاپا مجھے بچا لیں‘۔مجھے دو چیزوں پرشدیدحیرت ہوئی۔ایک تو یہ کہ میرے بیٹے نے کبھی مجھے ’پاپا‘ نہیں کہا۔اوردوسرے یہ کہ وہ میرے سامنے بیٹھانوڈلز کھا رہا تھا۔ میں نے مبینہ ایس ایچ او سے کہا کہ اب مجھے کیا کرناچاہیے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ بہت رحمدل ہیں اور اُنہیں لگتا ہے کہ میرابیٹابے گناہ ہے لہٰذا وہ نہیں چاہتے کہ میرے بیٹے پرکوئی کیس ہو لیکن اس کیلئے مجھے کچھ تعاون کرناہوگا۔میں نے ہامی بھری توبولے صرف پچاس ہزار فلاں نمبرپرٹرانسفر کروادیں۔میں نے کہا کہ ابھی کرواتا ہوں لیکن ذرابیٹے سے پوچھ کربتادیں کہ اس کے چھوٹے بھائی کا کیا نام ہے؟ یہ سنتے ہی دوسری طرف سے فون کٹ گیا۔ ایسی کالیں بہت سے لوگوں کو آتی ہیں اوریقیناًلوگ گھبراجاتے ہیں لیکن ایسے معاملات میں تھوڑا سا حوصلہ ساری بات کلیئر کرسکتاہے۔کال کرنیوالے سے کچھ ذاتی معلومات ضرور پوچھیں، مثلاً یہ کہ بیٹے سے پوچھ کر بتائے کہ صبح ناشتے میں کیا کھایا تھا، والدہ کا کیا نام ہے یا کسی قریبی رشتہ دارکا نام پوچھ لیں۔ایسے فراڈیوں کورٹی رٹائی لائنیں یاد ہوتی ہیں،یہ اُس سے تھوڑا سابھی اِدھراُدھر ہوجائیں تو گڑبڑا جاتے ہیں باقی وہ آپ سے سوالات کرکے اُگلوالیتے ہیں۔ایسے کسی بھی سوال کاجواب مت دیں۔اگروہ پوچھیں کہ آپ کیا کرتے ہیں تو الٹاانہی سے پوچھیں کہ بیٹا تو آپ کے پاس ہے اسی سے پوچھ کر بتائیں کہ میں کیا کرتاہوں۔