پاکستانیوں میں ایک خصوصیت بہرحال بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ بوقت ضرورت اپنے منہ کا نوالہ تک بھی اپنے ضرورت مند بھائی کو دینے سے نہیں کتراتے۔ بس یقین کامل ضروری ہے کہ ضرورت مند واقعتاً ضرورت مند ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق وطن عزیز میں 45 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں تاہم اسکے برعکس حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے متمول گھرانوں اور مخیر حضرات کی بھی کمی نہیں جو اجتماعی طور پر یا انفرادی طور پر کسی نہ کسی طرح چیرٹی کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ بیشتر لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی کابھی اہتمام کرتے ہیں یوں پاکستانی مسلمانوں کو ہر سال زکوٰۃ کی صورت میں لازماً چیرٹی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ دیگر صدقات و خیرات اور فطرانہ اس کے علاوہ ہیں۔ یقین رکھنا چاہیے کہ تمام مسلمان پاکستانی اپنے اپنے نصاب کے مطابق یہ فریضہ ضرور ادا کرتے ہیں اور ساتھ غیر مسلم پاکستانی بھی اپنے مذہب اور اپنی حیثیت کے مطابق چیرٹی میں کسی طور پیچھے نہیں رہتے۔ تاہم ایسے تمام افراد کو درپیش ایک مسئلہ اپنی چیرٹی کی سپردگی کا ہوتا ہے اور یہ فکر بھی نہایت اہم ہےکہ اگر کسی کو اپنی چیرٹی کے مصرف کا براہ راست پتہ نہیں تو کم از کم یہ یقین ضرور ہونا چاہیے کہ حق حقدار تک پہنچ رہا ہے اور اس کا استعمال بھی درست ہو رہا ہے اور یہ بھی کہ کہیں ہماری چیرٹی کالعدم تنظیموں کے ہاتھ تو نہیں لگ رہی ۔ کچھ لوگ حکومتی ذرائع سے تقسیم کو ہی معتبر سمجھتے ہیں جبکہ اکثریت ذاتی توسط سے اپنے صدقات و خیرات کی تقسیم میں سکون پاتے ہیں ۔ بہرحال طریقہ کار کوئی بھی ہو بس یہ اطمینان ضروری ہے کہ ہماری خیرات انسانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو۔ جیسا میں نے عرض کیا کہ اعداد و شمار کے مطابق 45فیصد سے زائد پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اس لحاظ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غریب افراد کی تعداد دس کروڑ سے زائد ہے ۔ یقینی طور پر ان دس کروڑ افراد کو خوراک، صاف پانی ، ادویات ، لباس ، گھر اور پھر تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے جبکہ کوئی بھی حکومت اتنی بڑی تعداد میں تنہا ان ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں این جی اوز اور چیرٹی اداروں کے کردار کو قطعاً فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض سفلی ذہنیت کے مالک افراد بھی اس مقدس فعل کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرتے ہیں۔ عوامی سطح پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ان کے ذریعے غیر محسوس طریقے سے مغربی نظریات کو نہ صرف پھیلایا جاتا ہے بلکہ انہیں فروغ بھی دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح بعض افراد شعوری یا لاشعوری طور پر کالعدم تنظیموں کو خیراتی رقوم تھما دیتے ہیں جو بعد ازاں ملک میں انتشار پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا سرکاری اور عوامی سطح پر ایسی این جی اوز اور تنظیموں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی مہم’’حق حقدار تک‘‘اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ تاہم جو ادارے عوامی سطح پر از خود یہ صالح عمل سر انجام دے رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے۔ سننے اور دیکھنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ سنے سنائے حقائق کی بجائے جب ہم حقیقت احوال اپنی نظروں سے دیکھ لیتے ہیں تو مہر تصدیق ثبت کرنا پڑتی ہے ۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک فلاحی ادارے المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کی سالانہ تقریب کا احوال دیکھنے کا موقع ملا۔لاہور کے قریب کامونکی کے مقام پر 63 جوڑوں کی اجتماعی شادیوں کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرانی ہوئی کہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی تمام تریسٹھ دلہنوں کو ساڑھے تین تین لاکھ کا ضروریات زندگی کا سامان فراہم کیا گیا۔ ہر جوڑے کے ساتھ چالیس چالیس مہمانوں کی ون ڈش کھانے سے تواضع بھی کی گئی۔ دنیا بھر کے مخیر خواتین و حضرات کے عطا کردہ عطیات کو ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد اپنی نگرانی میں ضرورت مندوں میں تقسیم کر رہے تھے۔ اس موقع پر ایک اور فلاحی ادارے اخوت کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب بھی موجود تھے۔ اخوت کی کارکردگی اور شفافیت بھی ہر خاص و عام پر روز روشن کی طرح عیاںہے۔ اسی طرح کشف فاؤنڈیشن بھی تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے نہایت اعلیٰ خدمات سر انجام دے رہی ہے ۔ سرور فاؤنڈیشن بھی تعلیم، طب اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں شاندار خدمات سر انجام دے رہی ہے۔سندس فائونڈیشن کی تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کیلئے خدمات مثالی ہیں ۔ ملک بھر میں دیگر بے شمار ادارے، تنظیمیں ، ٹرسٹ اور این جی اوز ایسی ہیں جو بنی نوع انسان کیلئے آسانیاں پیدا کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔ ہمیں ایسی تمام تنظیموں کی پذیرائی کرنی چاہیے۔ بلا تفریق رنگ و نسل انسانیت کی خدمت افضل عبادت ہے۔ عبدالستار ایدھی کے نام سے کون واقف نہیں ۔ وہ کسی لاش کو اٹھاتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے تھے کہ اس کا مذہب کیا ہے؟ اس کا عقیدہ ، فرقہ یا تعلق کس قوم سے ہے ؟ انسان تو انسان وہ تو جانوروں کی بھی مسیحائی کیا کرتے تھے۔ یہ ان کی لازوال اور بے لوث خدمات ہی کا صلہ ہے کہ آج ہر پاکستانی کے دل میں عبدالستارایدھی کیلئے ادب و احترام کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ زندگی کا سفر جاری ہے۔ حیات اک تسلسل کا نام ہے۔ ہر دور میں ہمیں ایدھی صاحب جیسی شخصیات کی ضرورت ہے ۔ عبدالرزاق ساجد کے مشن کا دائرہ کار چوبیس ممالک تک پھیل چکا ہے۔ قارئین کرام آج کے کالم کا آخری جملہ یہ ہے کہ صدقات و خیرات، زکوٰۃ یا چیرٹی کسی نہ کسی کو دے دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس بات کی خبر رکھنا بھی ضروری ہے کہ کہیں یہ بدخواہوں ، دہشت گردوں یا کسی انتشاری ٹولے کے ہاتھ نہ لگ جائے بلکہ’’حق حقدار تک‘‘ پہنچے۔ اس کیلئے ہمیں وقتاً فوقتاً ان اداروں کی کارکردگی اور ان کے سربراہوں کے افعال و کردار کا جائزہ بھی لیتے رہنا چاہیے۔