• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں انصاف و احتساب کے ساتھ ساتھ ایک نئی سیاسی تاریخ لکھی جا رہی ہے ۔ اپنے وقت کے مختارِ کل سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید کو چار سنگین الزامات میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دے کر 14 سال قید بامشقت سزا سنا دی گئی، ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ پاک فوج کے دوسرے سب سے طاقت ور ترین کسی سابق عہدے دار کو عمرقید کی سزا سنائی گئی ہو۔ اس فیصلے کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری پریس ریلیز کا آخری حصہ ہر تجزیہ نگار کی بحث کا موضوع ہے اور ہر ذی شعور اس حصے کی ادھوری کہانی کو مزید کھنگال رہا ہے کہ سیاست کے اناڑی کھلاڑی کا انجام کیا ہوگا اور اسکے بعد موجودہ سیاست کیا رُخ اختیار کرے گی۔ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کے بقول اس تاریخی فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کی سیاست میں خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوںگی، جبکہ ان کی پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کراچی میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کے دوران موجودہ حالات میں وزیراعظم بننے بارے ایک سوال کے جواب میں کانوں کو ہاتھ لگاتے پائے گئے ۔ بلاول بھٹو سیاسی بادشاہ گر آصف علی زرداری صاحب کے اکلوتے صاحبزادے ہیں اور موجودہ سیاسی و پارلیمانی لاٹ میں ایک قابل ترین نوجوان سیاسی قائد کے طور پر شہباز حکومت کے سب سے بڑے اتحادی بھی ہیں۔ وہ مختلف بحرانی مراحل، آئینی ترامیم میں طاقت ور حلقوں کی خواہش کے عین مطابق بڑے بڑے سیاسی معرکوں میں اپنا نمایاں کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ پاکستان کی پارلیمانی، جمہوری اور مزاحمتی سیاست کی تمام تر باریکیوں اور اتار چڑھاؤ میں دامن بچا کر اپنی بات منوانے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے فلور پر مخالفین پر کھلے عام نشتر چلاتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑتی ہے طنزومزاح سے بھی اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ صلاحیت انہیں اپنی والدہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور نانا ذوالفقار علی بھٹو سے وراثت میں ملی ہے جبکہ سیاسی دانش ، سوج بوجھ اور مخالفین پر بوقت ضرورت حملہ آور ہونے کی صلاحیت انکے والد کی میراث ہے، آصف زرداری کی دلی خواہش ہے کہ وہ اپنے بیٹے بلاول بھٹو کو پاکستان کے آئندہ وزیراعظم کے طور پر دیکھیں۔بلاول بھٹو نے مختصر مدتی وزیرخارجہ کے طور پر پاکستان کو خان ِاعظم کی پیدا کردہ سفارتی تنہائی سے نکالنے میں شہبازحکومت کی بھرپور مدد کی، معرکہ حق میں فتح کے بعد بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے بھارت کے فالس فلیگ آپریشن سندور کے من گھڑت بیانئے کا منہ توڑ جواب دینے میں اپنا بھرپور کردار اداکرکے مقتدرہ کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کامیاب کوشش کی، بلاول بھٹو زرداری جب وزیراعظم بننے کی خواہش پر مسکراتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگاتے اور مریم نواز کی پنجاب میں کارکردگی کو سراہتے ہوئے طنزاً انہیں سندھ خصوصاً کراچی آنے کی دعوت دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ن لیگ اپنے حصے کا گورنر سندھ کیوں نہیں لگاتی انہیں کس نے روکا ہے؟ وہ فیض حمید کیس کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے وقت کے دو بڑےجابروں (فیض حمیداور عمران خان)کا تذکرہ کرتے ہی اگلے روز لاہور تشریف لا کر گورنر ہاؤس میں پارٹی رہنماؤں، کارکنوں سیاسی و غیر سیاسی شخصیات وصحافیوں سے درجنوں ملاقاتیں کرکے باغبانپورہ کی گلی سے گزرتے ہوئے ایک گھریلو خاتون کے ساتھ اچانک غیرسیاسی مگر دلچسپ مکالمہ کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دل نہیں مانتا کہ وہ اپنی کسی سیاسی پوزیشن سے پیچھے ہٹ کر ن لیگ کو کوئی راستہ دینے کو تیار ہیں، صاف ظاہر ہے کہ وہ فیض حمید کیس کا فیصلہ آنے اور اسکے بعد بانی پی ٹی آئی اورانکی جماعت کے مستقبل کےبارے جن اندرونی خبروں سے آگاہی رکھتے ہیں ان حالات میںپنجاب ہی وہ واحد صوبہ ہے جو مستقبل میں آصف زرداری کی خواہش کو پورا کر سکتا ہے۔ بلاول بھٹواور صدر زرداری کی یکے بعد دیگرے لاہور آمد، ناراض کارکنوں سے ملاقاتیں ،رابطے اور متوقع بلدیاتی انتخابات کیلئے پیپلزپارٹی کو تیاری کرنے کی ہدایات وہ اشارے ہیں کہ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں پنجاب میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان ایک بڑا سیاسی معرکہ ہوگا ۔ دو بڑے سیاسی فریق نوازشریف اور آصف زرداری مستقبل کی پیش بندی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اگرچہ سیاسی بہن بھائیوں (مریم نواز ، بلاول بھٹو ) کے درمیان سوشل میڈیا پر خیرسگالی کےجذبات کا اظہار کچھ اس انداز میں کیا گیا ہے کہ مریم نواز ،بلاول بھٹو سے کہتی ہیں کہ پنجاب آپ کا گھر ہے یہاں آپ کو ہمیشہ عزت و احترام ملے گا ، جواب میں چھوٹے بھائی بلاول بھٹو کا یہ کہنا کہ محترمہ وزیراعلیٰ ، آپ کے مثبت رویے کا شکریہ۔یہ خیرسگالی پیغامات بظاہر فیض حمید کیس کے فیصلے کے بعد جاری پریس ریلیز کے آخری حصے کی ادھوری کہانی کا ابتدائیہ ہیں۔ اناڑی کھلاڑی کی قسمت کا فیصلہ نوشتہ دیوار ہے جسے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادتوں نے وقت سے پہلے ہی پڑھ لیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ہونیوالے چند بڑے عدالتی فیصلے پنجاب میں ایک ایسا سیاسی خلا پیدا کرینگے جسے ن لیگ کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے بجائے کسی اور جماعت نے پُر کرنا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ مقتدرہ ایک جماعت کیلئےمیدان کھلا چھوڑ دے، یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف اپنے اردگرد کے ماحول میں خطرے کی بو محسوس کر رہے ہیں ۔ میاں نوازشریف کا ایک عرصہ بعد سیاست میں متحرک ہونا، آزاد کشمیر ،گلگت بلتستان میں پارٹی رہنماؤں اور امید واروں سے ملاقاتیں، آئندہ کی سیاسی حکمت عملی پر تبادلہ خیال اور میرٹ پر امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا اعلان واضح اشارے ہیں کہ بڑے میاں صاحب ایک خاص اور محتاط حکمت عملی کے تحت دوبارہ متحرک ہوئے ہیں۔ سیاسی بہن بھائیوں کے درمیان خیرسگالی کےپیغامات کا تبادلہ محض ایک دکھاوا ہے اندرون خانہ تبدیل ہوتا سیاسی ماحول کچھ اورہی کہانی بیان کر رہا ہے۔

تازہ ترین