پاکستان میں بیروزگاری ایک مستقل اورسنگین مسئلہ بن چُکی ہے ۔ مگر ہماری قومی بحث میں ایک بنیادی نکتہ اکثر نظر انداز رہتا ہے جدید سرمایہ دارانہ معیشت میں روزگار دیناحکومت کا براہ راست فریضہ نہیںبلکہ اس کا کام یہ ہے کہ وہ ایسا ماحول فراہم کرے جس میں صنعتیں ، کاروبار ، ٹیکنالوجی ، اور نجی سرمایہ کاری خود بخود نئے روزگارپیدا کریں ۔اسی پس منظر میں وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کا حالیہ بیان سامنےآیا کہ ’’روزگار دینا حکومت کی نہیں نجی شعبہ کی ذمہ داری ہے ‘‘ اُن کے اس بیان پر اتنا شور و غوغا ہوا کہ الامان الحفیظ ۔دراصل وزیر خزانہ کابیان محض ایک جملہ نہیں بلکہ معاشی بیانیے کی سمت متعین کرنے کی کوشش ہے ۔ یہ بات اصولی طور پر درست ہے ، لیکن اس کیساتھ ایک بڑا سوال جُڑا ہے کہ کیاریاست نے وہ ماحول فراہم کیا جس میں نجی شعبہ واقعی یہ ذمہ داری اُٹھا سکے؟ ۔دُنیا کی تقریباًتمام کامیاب معیشتوں میں حکومت پالیسی کا تسلسل دیتی ہے ، قانون کی حکمرانی قائم کرتی ہے اورکاروبار کیلئے ضوابط کو شفاف اور سادہ بناتی ہے ۔ انفراسٹرکچر مہیا کرتی ہے ، انسانی سرمائے میں سرمایہ کرتی ہے ۔اس کے بعد نجی شعبہ آگے بڑھ کر صنعت لگاتا ہے ، برآمدات بڑھاتا ہے اور لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے ۔ اگر ریاست ہر جگہ خود کاروبار کرنے بیٹھ جائے، سرکاری ادارے بنا کر سیاسی بھرتیاں شروع کر دے اور خسارےعوام کے ٹیکس سے پورے کرے تو نہ صرف معیشت کمزور ہوتی ہے بلکہ نجی شعبہ بھی مرجھا جاتاہے ۔پاکستان کی تاریخ اس تلخ حقیقت سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی حکومت نے سرکاری ادارے بنا کر روزگار دینے کی کوشش کی وہ ادارے غیر منافع بخش ہوئے ، بدعنوانی کی نرسری بن گئے ، سیاسی بھرتیوں کا شکار ہوکر آخر میں خزانے پر بوجھ بن گئے۔ اگر ہم ورلڈ پاپولیشن ریویو کے اعدادو شمار دیکھیں تو پبلک سیکٹر یعنی حکومت اور اس کے ادارے بہت قلیل تعداد میں ملازمتیں فراہم کرتے ہیں مثلا” امریکہ میں صرف 13 فیصد سرکاری ملازم ہیں ‘‘۔ ترقی یافتہ اقوام نے مضبوط ویلفیئر سسٹم، بہترین تعلیم و صحت اور انتہائی شفاف اداروں کے ذریعے ایسا نظام وضع کیا ہے جس میں نجی شعبہ اعتماد کیساتھ سرمایہ کاری کرتا ہے ۔ اور وہ نہ صرف اپنے شہریوں کیلئے روزگارمہیا کرتا ہے بلکہ تیسری دُنیا کے لوگ بھی روزگار کی تلاش میں ان ممالک کا رُخ کرتے ہیں ۔اگر حکومت محض یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجاے کہ ’’روزگاردینا ہمارا کام نہیں “ لیکن پالیسی ہر سال بدلتی رہے ،ٹیکس نظام غیر یقینی رہے ، بجلی اور گیس کی قیمتیں مقابلہ کرنے کے قابل نہ رہیں تو پھرنجی شعبہ کیسے آگے بڑھے گا۔میری ناقص رائے میں اگر مندرجہ ذیل اقدام کیے جائیں تو اس ملک خُداداد کے سارے دلدر دور ہو جائیں گے ۔
انسانی سمگلنگ:پاکستان میں روزگار کی قلت اور بے یقینی کا ایک بھیانک رُخ انسانی سمگلنگ کی صورت میں آتا ہے۔ ہر سال ہزاروں نوجوان اپنا گھر بار بیچ کر ، قرض لے کر،ایجنٹوں کو لاکھوں روپے دے کر غیر قانونی طور پر یورپ اوردیگر ممالک جانے کی کوشش میں بحیرہ روم کی موجوں میں گُم ہو جاتے ہیں یہ صرف انسانی المیہ نہیں ہماری معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا ثبوت بھی ہے۔ اس کے باوجود بیرون ملک پاکستانی اربوں ڈالر سالانہ پاکستان بھیجتے ہیں۔ گُزشتہ سال 38 ارب ڈالرکی غیر ملکی ترسیلات اور امسال جولائی سے اکتوبرتک12.9 ارب ڈالر کی خطیر ترسیلات موصول ہو چُکی ہیں ۔ جبکہ غیررسمی ذرائع اسکے علاوہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت انسانی اثاثوں جو کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا برآمدی اثاثہ ہے کو ریگولیٹ کرے اور محفوظ اور دستاویزی لیبر ایکسپورٹ کرے ۔ ہمارے خطے کے کئی ممالک جیسےبھارت ، بنگلہ دیش اور فلپائن نے اپنی لیبر ایکسپورٹ کوقانونی فریم ورک اورافرادی قوت کی تربیت کے ذریعے منظم کیا ہے ۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ غیر قانونی ایجنٹوں اور اسمگلروں کے نیٹ ورک کوکچلتے ہوئے ریاستی سطح پر منظم لیبر ایکسپورٹ پالیسی بنائے ، اوورسیز افرادی قوت کیلئے اسکل ڈیویلپمنٹ سینٹرز قائم کرے ،بیرونِ ملک آجر کیساتھ سرکاری سطح پر MoUs ترتیب دے۔ اس طرح قیمتی جانیں بھی بچیں گی ۔ نوجوان محفوظ روزگار پائیں گےاورترسیلات زربھی بڑھیں گی ۔
سیاسی اورمعاشی استحکام :سرمایہ کار غیر یقینی ماحول سے بھاگتا ہےجب تک پالیسی کا تسلسل نہ ہو۔ حکومتوں کی تبدیلی سے معاشی سمت نہ بدلے اورادارے شخصیات نہیں بلکہ قانون کے تابع ہوں۔
معاشی بنیادوں پر خارجہ پالیسی:خارجہ پالیسی کو تجارت Foreign direct Investment میں بڑھوتری اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور غیر ملکی منڈیوں تک رسائی کے اہداف کیساتھ جوڑنا ہوگا ۔ صرف سیکورٹی یا روایتی سفارت کاری سے آگےبڑھ کر مرکزی Economic Diplomacy کو اہمیت دینا ہوگی۔ اس سلسلے میں اہم کردار سفارت خانوں میں کمرشل قونصلرز کا رہے گا۔ موجودہ نظام میں ان قونصلرز کی تعیناتی فیڈرل بیوروکریسی سے کی جاتی ہے جن کوپاکستان کی برآمدی اشیاکا کوئی ادراک نہیں ہوتا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ تعیناتیاں FPCCI کے تعاون سے تاجر برداری سے پڑھے لکھے افرادمیں سے کی جائیں۔ یہی دنیاکا کامیاب ماڈل ہے ۔نئی صنعت کاری:نئی صنعتیں لگائے بغیر روزگار کا مسئلہ حل نہیں ہوگا اس کیلئے ٹیکس اصلاحات، توانائی کی مسابقتی قیمت ، ون ونڈوآپریشن کی حقیقی عملی شکل ، سستے صنعتی قرضو ں تک آسان رسائی، اور سرخ فیتے کا خاتمہ کرنا ہوگا۔زرعی معیشت کی جدید کاری : اگر ہم مشینی زراعت ، جدید آبپاشی کا نظام جیسے Drip and sprinkle irrigation system، اعلیٰ بیج ، فوڈپراسیسنگ اور ایگروانڈسٹری کو فروغ دیں تو دیہی علاقوں میںلاکھوں روزگار پیدا ہو سکتے ہیں اورشہروں کی طرف ہجرت کا دباؤ بھی کم ہوگا۔
آئی ٹی انڈسٹری:یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو کم سرمایہ ، زیادہ ذہانت اور عالمی منڈی تک براہ راست رسائی کا امتزاج پیش کرتا ہے اسکے لیے ملک کے طول و عرض میں Technology Parks بنائےجائیں۔ یہ اقدام لاکھوں نوجوانوں کو باعزت روزگار دے سکتا ہے اورملک سے Brain drain بھی خاصی حد تک کم ہوجائے گا۔