• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر انسان کے وجود میں تخلیق کے بیج فطری طور پر بوئے گئے ہوتے ہیں۔ انسان محض ایک جسم نہیں بلکہ دھڑکتے دل اور خواب دیکھنے والی روح کا مجموعہ ہے، اس لیے اس سےصرف مشینی رویّوں کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ وہ سوچتا ہے، محسوس کرتا ہے اور اپنے اظہار کیلئے نئے راستے تلاش کرتا ہے۔ جن لوگوں میں تخلیقی رجحان ہوتا ہے، ان کے معمولاتِ زندگی میں بھی ایک نیا پن اور جمالیاتی قرینہ جھلکتا ہے۔ تاہم بعض افراد میں یہ جوہر اس قدر نمایاں اور غالب ہوتا ہے کہ وہ شاعر، ادیب یا مصور کے طور پر اپنی پہچان بنا لیتے ہیں۔ یہ سوال ہمیشہ اہم رہا ہے کہ کسی تخلیق کار پر یہ راز کب منکشف ہوتا ہے کہ اس کے اندر تخلیق کا دریا موجزن ہے۔ شاعری کی بات کریں تو نوعمری میں ہر دل اس کی لے پر دھڑکتا اور اس کی جانب خاص کشش محسوس کرتا ہے۔اس عمر میں اکثر لوگ اپنی ڈائری میں مقبولِ عام محبت کے اشعار لکھتے اور کبھی کبھی جذبات کو نظم میں ڈھالنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، مگر ایسی ہر تحریر اور جذبہ شاعری نہیں ہوتا ۔جیسے آج سوشل میڈیا کی چکاچوند میں وقتی کیفیت اور فوری تاثر کو بھی شاعری قرار دیدیا گیا ہے، مگر اصل تخلیق اس سطح سے کہیں آگے کی چیز ہے۔ تاہم یہی وہ عمر ہوتی ہے جب حقیقی تخلیق کار پر آہستہ آہستہ اپنا آپ کھلنا شروع ہوتا ہے اور وہ کسی نہ کسی صنف میں مستقل اظہار کی راہ پکڑ لیتا ہے۔

کچھ لوگ( خصوصا ًخواتین) زندگی کے ابتدائی برسوں میں کسی ذمہ داری یا مقصد کے حصول میں اس قدر منہمک رہتے ہیں کہ اپنی تخلیقی صلاحیت سے ناواقف رہ جاتے ہیں، مگر وقت کا کوئی المناک حادثہ اس دبی ہوئی چنگاری کو شعلہ بنا دیتا ہے۔ کسی عزیز کی جدائی، خاص طور پر محبوب ہستی کا بچھڑ جانا، انسان کے باطن میں ایسا خلا پیدا کرتا ہے جہاں سے تخلیق اپنے اظہار کی راہ نکالتی ہے۔یاسمین حمید صاحبہ اسی حقیقت کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔انھیں وقت نے اسلوبی شاعری کی معتبر آواز، محقق، مترجم اور صاحبِ فکر و رائے دانشور کی سند عطا کی ہے ۔ اردو ادب میں ان کا حوالہ نہ صرف ان کے علمی و تخلیقی کام کے باعث اہم ہے بلکہ ان کی شخصیت کی شائستگی، تہذیب اور وقار بھی انھیں ممتاز بناتے ہیں۔وہ کم گو ہیں مگر ان کی موجودگی مکالمہ کرتی ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز کے باوجود ان کے چہرے پر کسی ناگوار احساس یا تلخی کے بجائے معصوم مسکراہٹ دکھائی دیتی ہے۔

گزشتہ دنوں انھوں نے اپنی رہائش گاہ پر اپنی برسوں پرانی دوست قیصر عرفان کے ساتھ ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا، جس میں شہر کی معتبر لکھاری خواتین شریک ہوئیں۔ حلیمی، رواداری اور خلوص کا پیکر قیصر عرفان کو جوانی میں بیوگی کو جھیلنا پڑا،وقت گزرتا رہا مگر دل وہیں ٹھہر گیا، ان کی شاعری کا بڑا حصہ ہجر و وصال کے انہی لمحوں کا بیان ہے جو یاد، دکھ اور محبت کے درمیان سانس لیتے ہیں۔وہ خود کو ہجر کے اندھیرے میں محسوس کرتی ہیں، کیونکہ ان کی سوچوں کا مرکز، ان کا چراغ سا محبوب، اسی اندھیرے میں کھو چکا ہے۔ شاید اسی داخلی کرب کا اظہار ان کی کتاب کے عنوان ’’دِیا اندھیرے میں کھو گیا ہے‘‘ میں بھی جھلکتا ہے،ایک ایسا دِیا جو بجھ کر بھی روشنی کی کہانی سناتا ہے۔اپنے جیون ساتھی کیلئے قیصر کی لکھی نظم دیکھئے۔

میں وقت کی اب بھی ڈور تھامے

جہاں کھڑی تھی وہیں کھڑی ہوں، وہ ایک منظر جو میری آنکھوں پہ آ کے برفاب ہو گیا ہے

وہ ایک چہرہ جو آپ ایک خواب ہو گیا ہے

وہ ایک چہرہ کہ جس کی لَو سے، بُجھے دِیے جگمگا اٹھے تھے

وہ گل کہ جس کی ہنسی کی آواز سُن کے

باغوں کے سارے گل مسکرا رہے تھے

وہ ایک لمحے میں ساری خوشبو لٹا کے

چپ چاپ سو گیا ہے

دِیا اندھیرے میں کھو گیا ہے

اور اِس اندھیرے میں

اپنی دونوں ہتھیلیوں میں وہ لمحہ تھامے

میں آنے والا تمام عرصہ

جہاں کھڑی تھی، کھڑی رہوں گی

ایک غزل جو سراپا درد میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ دیکھئے

وہ ایک رات بہت سےدنوں پہ بھاری ہے

جو میں نے خواب میں ہمراہ ترے گزاری ہے

میں رنگ کھیلتی تھی اور یہ نہ تھا معلوم

نصیب میں مرے لکھی سفید ساری ہے

یہ ہاتھ بھی تو زمانے قلم کیے ہوتے

کلائی سے مری چوڑی اگر اتاری ہے

اور اب تو بھول رہی ہوں تمیزِ شام و سحر

عجب جمود مری زندگی پہ طاری ہے

وہ جس کا مرکزی کردار کھو گیا ہو کہیں

ادھوری اس کے بنِا داستاں ہماری ہے

زمانے بھر سے ملے غم سہارتے رہے ہم

مگر یہ تم سے بچھڑنے کا زخم کاری ہے

شکایتیں ہیں بہت پر گِلہ کریں کیسے

حیا ہے مانع، ہمیں پاسںِ وفاداری ہے

تازہ ترین