• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سولہ دسمبر 1971ء پاکستان کی تاریخ کا وہ دن ہے جس نے یہ حقیقت بے نقاب کر دی کہ ریاستیں صرف جغرافیہ سے نہیں، انصاف، شمولیت اور سیاسی بصیرت سے قائم رہتی ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کو اگر محض ایک عسکری شکست سمجھا جائے تو یہ خود فریبی ہوگی۔ درحقیقت یہ سانحہ دہائیوں پر محیط سیاسی غلطیوں، آئینی انحراف، طاقت کے بے جا استعمال اور قومی وحدت کے تصور کو نظر انداز کرنے کا منطقی انجام تھا۔

پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہی اقتدار کا مرکز مغربی پاکستان بن گیا، حالانکہ آبادی کے لحاظ سے اکثریت مشرقی پاکستان کی تھی۔ 1956ء اور 1962ء کے آئین، ون یونٹ اسکیم، اور صدارتی نظام نے مشرقی پاکستان کے اس احساس کو مزید گہرا کیا کہ انہیں دانستہ طور پر اقتدار سے دور رکھا جا رہا ہے۔ یہ وہ بنیادی سیاسی ناانصافی تھی جس نے علیحدگی کے بیج بوئے۔

1948ء میں اردو کو واحد قومی زبان قرار دینے کا اعلان محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک گہرا سیاسی پیغام تھا۔ بنگالی زبان، جو اکثریت کی مادری زبان تھی، اسے قومی شناخت کے دائرے سے باہر رکھنے کی کوشش نے بنگالی قوم پرستی کو جلا بخشی۔ 1952ء کی لسانی تحریک دراصل اسی سیاسی بے حسی کے خلاف پہلا منظم عوامی ردِعمل تھا۔

ایوب خان کے دور میں معاشی ترقی کے دعوے کیے گئے، مگر یہ ترقی علاقائی توازن سے محروم رہی۔ معاشی اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ مشرقی پاکستان زرِ مبادلہ کمانے میں اہم کردار ادا کرتا تھا، مگر صنعتی ترقی، انفراسٹرکچر اور فیصلہ سازی مغربی پاکستان تک محدود رہی۔ سیاست میں جب معاشی انصاف شامل نہ ہو تو محرومی بغاوت میں بدل جاتی ہے۔

1970ء کے عام انتخابات پاکستان کی سیاسی تاریخ کا فیصلہ کن موڑ تھے۔ عوامی لیگ کو واضح اکثریت ملی، مگر اقتدار منتقل کرنے کے بجائے تاخیری حربے اختیار کیے گئے۔ فوجی قیادت کی سیاسی ہچکچاہٹ اور ذوالفقار علی بھٹو کے بیانیے نے جمہوری راستہ بند کر دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جہاں آئین، پارلیمان اور سیاست کو غالب آنا چاہیے تھا، مگر طاقت کو فوقیت دی گئی۔

مارچ 1971ء میں فوجی آپریشن نے سیاسی مسئلے کو عسکری مسئلہ بنا دیا۔ ریاست اور عوام آمنے سامنے آ گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی لیگ کی علیحدگی پسند سیاست کو اخلاقی اور عوامی جواز مل گیا۔ یہاں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی ہوگی کہ ریاستی تشدد کبھی سیاسی مسائل کا حل نہیں بنتا، بلکہ انہیں ناقابلِ واپسی موڑ پر لے جاتا ہے۔

بھارت نے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ مکتی باہنی کی عسکری مدد، سفارتی مہم اور عالمی میڈیا میں مؤثر بیانیہ پیش کر کے بھارت نے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کر دیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر اندرونی محاذ مضبوط ہوتا تو کیا بیرونی مداخلت اس حد تک کامیاب ہو سکتی تھی؟

میڈیا اور سفارت کاری میں ناکامی بھی سقوطِ ڈھاکہ کا اہم پہلو تھی۔ عالمی رائے عامہ کو قائل کرنے کے لیے کوئی مؤثر سیاسی بیانیہ موجود نہیں تھا۔ ریاستی موقف کمزور، غیر واضح اور دفاعی تھا، جبکہ مخالف بیانیہ جارحانہ اور منظم نظر آیا۔

آج، جب ہم 1971ء کو یاد کرتے ہیں تو یہ سوال محض تاریخ کا نہیں، حال اور مستقبل کا بھی ہے۔ کیا ہم نے مرکز اور اکائیوں کے تعلق کو واقعی آئینی اور سیاسی بنیادوں پر استوار کیا؟ کیا آج بھی محرومی، شکایت اور بے اعتمادی کے بیج کہیں نہ کہیں موجود نہیں؟ کیا ہم اختلاف کو غداری اور تنقید کو بغاوت سمجھنے کی روش سے باہر آ چکے ہیں؟

سقوطِ ڈھاکہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ریاست کی اصل طاقت بندوق نہیں، بلکہ آئین، پارلیمان، عوامی مینڈیٹ اور مساوی شہری حقوق ہوتے ہیں۔ جب سیاست کو دبایا جاتا ہے تو تاریخ خود کو دہرانے لگتی ہے۔ یہ سانحہ ہمیں خبردار کرتا ہے کہ اگر ہم نے ماضی سے سیکھنے کے بجائے اسے فراموش کر دیا تو زخم بھرنے کے بجائے مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔

قومیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کر کے ہی آگے بڑھتی ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ جمہوریت، مکالمے ، معاشی مساوات ، سیاسی برداشت اور انصاف کے بغیر کوئی ملک دیرپا وحدت قائم نہیں رکھ سکتا۔

تازہ ترین