• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ہفتہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ فوجی عدالت کا یہ فیصلہ نہ صرف ملک کے سب سے طاقتور ادارے کے اندر موجود ایک اعلیٰ افسر کو احتساب کے دائرے میں لایا ہے بلکہ اس بات کا بھی واضح اشارہ ہے کہ قانون کی حکمرانی کسی سے بالاتر نہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف سزا کا اعلان ایک ایسا واقعہ ہے جس پر قوم کے مختلف حلقوں کے ردعمل یکساں نہیں۔ یہ فیصلہ ایک آئینہ ہے جس میں ہر سیاسی و سماجی طبقہ اپنے اپنے نظریات اور مفادات کے مطابق تصویر دیکھ رہا ہے۔

پاک فوج کے حامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ فیصلہ درحقیقت ادارے کی مضبوطی، شفافیت اور قانون سے والہانہ وابستگی کا اظہار ہے۔ پاکستان کی عسکری تاریخ میں ایسے مواقع کم ہی آئے ہیں جب کسی جنرل کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہو۔ یہ اقدام خود ادارے کی اس داخلی سالمیت کا ثبوت ہے جو ہمیشہ سے اس کی پہچان رہی ہے۔ یہ پیغام عام شہری اور جوان دونوں کے لیے یکساں اہم ہے کہ چاہے عہدہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو، اگر وہ قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو اسے بازپرس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاک فوج صرف سرحدوں کی محافظ نہیں بلکہ آئین و قانون کی پاسبان بھی ہے۔ اس فیصلے سے ادارے کی ساکھ مجروح نہیں ہوتی بلکہ مضبوط ہوتی ہے، کیونکہ عوام کے سامنے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فوج کسی سے مراعات یافتہ نہیں۔ یہ وہ راستہ ہے جو کسی بھی جمہوری معاشرے میں احتساب کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرتا ہے۔ فوجی قیادت کا یہ قدم ان کی غیرجانبداری اور قومی مفاد کو ہر چیز پر ترجیح دینے کی واضح علامت ہے۔ اس سے نہ صرف فوجی ڈسپلن کو تقویت ملتی ہے بلکہ پورے ملک میں یہ پیغام جاتا ہے کہ طاقت کا استعمال ذمہ داری سے ہونا چاہیے۔

دوسری طرف، پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریے کو سامنے رکھیں تو ان کے لیے یہ فیصلہ صرف ایک آغاز ہے۔ پیپلز پارٹی کی تاریخ اداراتی مداخلت اور سیاسی انجینئرنگ کے الزامات سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کی نظر میں یہ فیصلہ ایک ایسے شخص کو سزا دینے کا عمل ہے جس پر ماضی میں انتخابی عمل میں غیرضروری مداخلت اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے سنگین الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں وہ اس فیصلے کو محض ایک اقدام سے زیادہ، ایک علامتی عمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ سزا اس نظام کی کامیابی نہیں بلکہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ماضی میں کس طرح کے اقدامات سے جمہوریت کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ بے نظیر بھٹو کے دور سے لے کر آج تک، پیپلز پارٹی کا مؤقف رہا ہے کہ غیرجماعتی قوتوں نے ملک کی سیاسی راہ ہموار نہیں ہونے دی۔ لہٰذا، یہ فیصلہ ان کے نزدیک ایک تاخیر سے انصاف کی مثال ہے، جو ماضی کی غلطیوں کی تسلیم کرتا ہے۔ تاہم، وہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ محض ایک فرد کو سزا دینا کافی نہیں، بلکہ پورے نظام میں ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے جو ایسے واقعات کو روک سکیں۔ ان کے نقطہ نظر میں، جمہوریت کی مضبوطی ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر ملک مستحکم ہو سکتا ہے، اور یہ فیصلہ اسی سمت میں ایک چھوٹا سا قدم ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کا زاویہ اس سے قدرے مختلف ہے۔ ان کی سیاسی تاریخ میں بھی فوجی سیاسی تعامل کے پیچیدہ دور شامل ہیں۔ نواز شریف کی متعدد حکومتوں کے اختتام کے پیچھے اداراتی کردار پر ہمیشہ سوال اٹھتے رہے ہیں۔ لہٰذا، مسلم لیگ (ن) کے حلقے میں یہ فیصلہ ایک تدبیر اور حقیقی احتساب کے درمیان کہیں کھڑا نظر آتا ہے۔ ایک طرف، وہ قانون کے تحت کسی بھی فرد کے خلاف کارروائی کی حمایت کرتے ہیں، خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ دوسری طرف، ان کے تجربات انہیں محتاط رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کہیں یہ محض ایک نمائشی اقدام تو نہیں؟ کہیں یہ طاقت کے حقیقی مراکز میں تبدیلی کی بجائے عوامی توجہ ہٹانے کی کوشش تو نہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو ان کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا مؤقف اکثر ’’حیثیت کی سیاست‘‘اور اداروں کے ساتھ مفاہمت کے گرد گھومتا آیا ہے۔ اس لیے وہ ممکنہ طور پر اس فیصلے کو ایک ایسے ’’ضروری اصلاحی قدم‘‘ کے طور پر پیش کریں گے جو ادارے کی شفافیت کو بڑھاتا ہے، مگر ساتھ ہی وہ اس بات پر زور دیں گے کہ احتساب کا یہ سلسلہ صرف فوج تک محدود نہ رہے بلکہ تمام شعبوں، خاص طور پر سیاست دانوں کے خلاف بھی یکساں ہو۔ ان کے لیے، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ ایک مستقل روایت کی بنیاد رکھے گا، یا پھر وقت گزرنے کے ساتھ یہ محض ایک واقعہ بن کر رہ جائے گا؟ وہ ماضی کی طرح سبق سیکھنےاور ملک کو آگے بڑھانے کی بات کریں گے، مگر ان کے اندر کا تجربہ انہیں شک کی عینک سے دیکھنے پر مجبور کرے گا۔

اس تمام تر صورتحال میں ایک عام پاکستانی شہری کا نقطہ نظر سب سے اہم ہے۔ عام آدمی کے لیے، یہ فیصلہ امید کی ایک کرن ہے کہ شاید اب ملک میں واقعی کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ مگر ساتھ ہی، وہ ماضی کے ان بے شمار واقعات کو بھی نہیں بھولتا جہاں طاقتور طبقوں نے قانون کو اپنے مفادات کے لیے موڑا۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ کیا یہ سزا محض ایک استثنا ہے یا پھر یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے ۔

یہ فیصلہ پاکستان کے لیے ایک امتحان ہے۔ یہ امتحان ہے ہمارے عدالتی نظام کا، اداروں کی مضبوطی کا، قیادت کے عزم کا، اور عوامی اعتماد کا۔ اگر یہ فیصلہ واقعتاً قانون کی بالادستی کا اعلان ہے، تو پھر اسےہر سطح پر یکساں احتساب کے سلسلے کا نقطہ آغاز ہونا چاہیے۔ اس سے پاکستان میں ایک نئی سیاسی اور اداراتی ثقافت کی بنیاد پڑ سکتی ہے، جہاں جوابدہی سب کے لیے یکساں ہو۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے، تو پھر یہ فیصلہ نہ صرف جنرل فیض حمید کے خلاف ایک عدالتی حکم رہ جائے گا، بلکہ پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔

تازہ ترین