• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکیسویں صدی کی تیز رفتار ٹیکنالوجی نے زندگی آسان بنا دی ہے، مگر اسی ترقی نے نئے خطرات بھی پیدا کیے ہیں۔ سب سے نمایاں اور خطرناک چیلنج ڈیجیٹل تشدد یا آن لائن ہراسگی ہے، جس نے خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کے لیے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔ ڈیجیٹل تشدد کے خطرات میں سوشل میڈیا، چیٹنگ پلیٹ فارمز، موبائل ایپس، ویڈیو شیئرنگ سائٹس، مصنوعی ذہانت سے بننے والے جعلی مواد، اور ڈیٹا کے لیک ہونے جیسے مسائل شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین کے مطابق، ڈیجیٹل تشدد صنفی بنیادوں پر ہونے والے روایتی تشدد کی توسیع بن چکا ہے، جس سے خوف، نگرانی، بلیک میلنگ، جذباتی دباؤ اور سماجی تنہائی جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر، قدامت پسند اور عدم مساوات پر مبنی معاشرے میں یہ مسئلہ کئی گنا زیادہ بڑھ چکا ہے، اور خواتین کو انفرادی، خاندانی، سماجی، معاشی اور نفسیاتی طور پر متاثر کر رہا ہے۔

ڈیجیٹل تشددیا آن لائن ہراسگی ان تمام سرگرمیوں پر مشتمل ہے جو کسی فرد، خاص طور پر عورت یا لڑکی، کو ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس میں شامل ہیں بدنامی، دھمکی، کردار کشی، بلیک میلنگ، غیر رضامندانہ نجی مواد کی ترسیل، مصنوعی ذہانت کے ذریعے جعلی ویڈیوز کی تخلیق، سائبر اسٹاکنگ (Cyberstalking)، جاسوسی، لوکیشن ٹریکنگ اور آن لائن ہراسگی۔ یہ تشدد اس وقت زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے جب اسے معاشرتی اقدار، عزت و غیرت کے نظریات اور پٹریارکل رویوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے، کیونکہ متاثرہ عورت خاموش رہنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ ڈیجیٹل تشدد میں چھوٹی مگر مستقل کنٹرول کی صورتیں بھی شامل ہیں، جیسے شوہر، منگیتر یا بوائے فرینڈ کا فون چیک کرنا، پاس ورڈ طلب کرنا، اور میسجز یا فون کی سرگرمیوں کی نگرانی۔ یہ حرکات ذہنی غلامی، خوف اور نفسیاتی جبر پیدا کرتی ہیں۔پاکستان میں انٹرنیٹ تک رسائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ موبائل فون سستے ہو چکے ہیں، ہر عمر کے افراد سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں، اور ٹیکنالوجی عام ہو گئی ہے۔ تاہم بڑھتی رسائی نے خواتین کو ایسے خطرات کے سامنے لا کھڑا کیا ہے جن کے بارے میں آگاہی اور تحفظ کے مناسب انتظامات موجود نہیں ہیں۔ پاکستان میں ڈیجیٹل تشدد کے بڑھنے کے عوامل میں معاشرتی قدامت پسندی، غیرت پر مبنی سوچ، عورت پر الزام تراشی کا کلچر، ڈیجیٹل لٹریسی کی کمی، اداروں پر عدم اعتماد اور کمزور قانونی عملداری شامل ہیں۔ یہ عوامل خواتین کو ہر عمر میں اپنی آن لائن سرگرمیوں کی وجہ سے موردِ الزام ٹھہرانے کی صورتحال پیدا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے بڑے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل تشدد کی سب سے عام اور خطرناک شکل غیر رضامندانہ تصاویر اور ویڈیوز کا پھیلاؤ ہے۔ یہ حقیقی یا مصنوعی ذہانت کی مدد سے جعلی ہو سکتی ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کی تصاویر چوری یا ایڈیٹ کر کے بلیک میل کیا جانا عام ہو گیا ہے۔ متاثرہ لڑکی کے گھر والے اکثر اسے شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، جس سے متاثرہ لڑکی خودکشی یا شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتی ہے۔مصنوعی ذہانت نے تصویر اور ویڈیو ایڈیٹنگ کو نئے درجے تک پہنچا دیا ہے۔ چند کلکس میں کسی بھی لڑکی یا عورت کا چہرہ غیر اخلاقی ویڈیو میں لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں اس کا نشانہ طالبات، اساتذہ، یوٹیوبرز، انفلوئنسرز اور عام صارفین بنتے ہیں۔ ڈیپ فیک ویڈیوز (Deepfake Videos) متاثرہ خواتین کو سماجی بائیکاٹ، ذہنی اذیت، خاندانی تنازعات اور پیشہ ورانہ محدودیت کا شکار بناتی ہیں۔ڈیجیٹل تشدد کے اثرات محض آن لائن نقصان تک محدود نہیں ہیں۔ یہ خوف، بےچینی، ڈپریشن، خود اعتمادی کی کمی، نیند کی خرابی اور بعض اوقات خودکشی جیسے نفسیاتی اثرات پیدا کرتا ہے۔ سماجی طور پر متاثرہ خواتین بدنامی، خاندانی تنازعات، تعلیم میں رکاوٹ اور روزگار کے نقصان کا سامنا کرتی ہیں۔ معاشی طور پر بھی نقصان شدید ہوتا ہے کیونکہ بہت سی خواتین آن لائن کاروبار یا فری لانسنگ سے محروم رہ جاتی ہیںاور سیاسی و سماجی سرگرمیوں سے بھی دور ہو جاتی ہیں۔

پاکستان کا سائبر کرائم قانونPrevention of Electronic Crimes Act 2016 / PECA اہم پیش رفت ہے، مگر اس پر تنقید یہ ہے کہ اس کی تشریح محدود ہے، نفاذ کمزور ہے، تفتیش سست ہے، اور تکنیکی مہارت محدود ہے۔ نتیجتاً مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں اور متاثرہ خواتین مزید دباؤ میں آ جاتی ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین(UNW) کے مطابق ڈیجیٹل تشدد دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے، مگر پاکستان جیسے معاشروں میں اس کے اثرات کئی گنا زیادہ ہیں۔ معاشرتی دباؤ، بدنامی، غیرت اور خاندان کے خوف اس جرم کو خطرناک بناتے ہیں۔ عالمی کال ٹو ایکشن واضح کرتی ہے کہ دنیا کو اسے حقیقی، باقاعدہ اور مستقل صنفی ظلم کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا، اور پاکستان کے لیے یہ پیغام خاص اہمیت رکھتا ہے۔پاکستان کے لیے فوری اقدامات میں محفوظ، شفاف اور تیز رفتار رپورٹنگ نظام قائم کرنا، وفاقی تحقیقاتی ادارے میں خواتین آفیسرز تعینات کرنا، اسکولوں اور کالجز میں ڈیجیٹل سیفٹی کے لازمی مضامین پڑھانا اور آن لائن اخلاقیات پر مہمات چلانا شامل ہیں۔ درمیانی مدت میں حکومت کو سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ شراکت بہتر بنانی چاہیے، ڈیپ فیک پورن کے لیے الگ دفعات شامل کرنی چاہئیں، عدالتوں میں خصوصی ٹائم لائن مقرر کی جائےاور خواتین کے لیے سائبر کرائسز سینٹرز قائم کیے جائیں جہاں قانونی، نفسیاتی اور تکنیکی مدد فراہم کی جا سکے۔ طویل المدتی اقدامات میں ڈیجیٹل لٹریسی کو نصاب کا حصہ بنانا، معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانا، خواتین کی آن لائن معاشی سرگرمیوں کو محفوظ بنانا، اور ایک قومی ڈیجیٹل سیفٹی اتھارٹی قائم کرنا شامل ہیں۔

ڈیجیٹل تشدد محض آن لائن مسئلہ نہیں، بلکہ خواتین کی آزادی، تحفظ، عزت، روزگار، تعلیم اور سماجی کردار کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے: اگر اصلاحات نہ کی گئیں تو نئی نسل خوف، عدم اعتماد اور بے یقینی میں پروان چڑھے گی، مگر اگر مضبوط اقدامات کیے جائیں تو ڈیجیٹل دنیا خواتین کے لیے محفوظ اور مساوی بن سکتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ساتھ قدم ملا کر ایک محفوظ، مساوی اور باوقار ڈیجیٹل معاشرہ قائم کرے۔

تازہ ترین