• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک دوست کے ڈرائنگ روم میں بیٹھاتھا۔ اچانک سردرد محسوس ہوا۔ اُس سے دردکی گولی مانگی تو اس نے ایک بڑا سا ڈبہ سامنے لارکھا۔ میں نے ڈبہ کھولاتووہ پورامیڈیکل اسٹورتھا۔ ہررنگ اور سائز کی گولیاں موجود تھیں۔ پین کلر، اینٹی بائیوٹک، سیرپ، ملٹی وٹامنز اور پتا نہیں کیاکیا۔ پتاچلاکہ ان کی والدہ اکثر بیمار رہتی ہیں لہٰذا آئے دن ڈاکٹرز کے ہاں جانا ہوتا ہے۔ میں نے پوچھاکہ کیا تم والدہ کو ٹائم پردَوا نہیں دیتے؟ کیونکہ کئی گولیوں کے پیکٹ توجوں کے توں پڑے ہیں۔ اس نے ٹھنڈی آہ بھری’امی دوباتوں میں بڑی ضدی ہیں، ا یک تو وہ کہتی ہیں کہ علاج ڈاکٹر سے ہی کروانا ہے اور دوسرے یہ کہ دوا صرف دیسی لینی ہے کیونکہ ’ڈاکٹری دوائیاں‘گرم ہوتی ہیں۔ گویاماں جی ہر دفعہ ڈاکٹر سے چیک اپ کرواکے، فیس بھرکے گولیاں لے آتی ہیں اورڈبے میں رکھ کردیسی علاج شروع کر دیتی ہیں۔ پرائیویٹ ڈاکٹروں کے پاس آنیوالے مریضوں کو یقین ہوتاہے کہ بالآخر آرام ’ٹیکے‘سے ہی آئیگا۔کئی ڈاکٹر پھر ایسا ’ٹیکا‘ لگاتے ہیں کہ مریض کوواقعی آرام آجاتاہے۔میرا ایک دوست ڈاکٹرہے اور بتاتا ہے کہ کئی دفعہ تو مریض صرف مجھے فیس دینے کیلئے تشریف لاتے ہیں۔اپنی دوا خودتجویزکرتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ فلاں دوا لکھ دیں اورپیسے دے کرچلے جاتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ پڑھے لکھے مریضوں سے مجھے سب سے زیادہ خوف آتا ہے۔ان کوکوئی دوا لکھ کر دیں تو یہ اس کا پورا سالٹ نیم بھی جانتے ہیں بلکہ بحث بھی کرتے ہیں کہ یہ تو اسٹیرائیڈ ہے۔دوست کی بات سن کر مجھے یقین اس لیے آگیا کہ ہمارے محلے کے ڈاکٹر صاحب سے میری اچھی سلام دعا ہے ایک دفعہ رات کو ان کا فون آیا اور کہنے لگے’پیٹ میں بہت درد ہے، کون سی دوائی لینی چاہیے؟‘۔

٭ ٭ ٭

لاہور میں اسموگ کےبعداب فوگ شروع ہوگئی ہے۔ تقریباً پورے ملک میں ہی یہ حال ہے۔مجھے دھند بہت اچھی لگتی ہے، سخت سردیوں کی دھندکا اپناہی رومانس ہے۔ مگرآپ نے وہ خوفناک وڈیوز تو دیکھی ہوں گی جن میں سخت دھند کی وجہ سے ایک کے بعد ایک گاڑی ٹکرا رہی ہوتی ہے۔برادرم اجمل شاہ دین اپنے ایک انکل کا واقعہ سناتے ہیں کہ وہ فیصل آباد موٹروے پرآرہے تھے۔ سخت دھند تھی۔ ٹول پلازہ کے قریب پہنچے توپیچھے سے ایک گاڑی نے اُن کی گاڑی کوہلکاساٹچ کردیا اور ڈینٹ پڑگیا۔ وہ غصے سے نیچے اترے اور پیچھے والی گاڑی میں بیٹھے صاحب پر برس پڑے کہ یہ آپ نے کیا کر دیا ہے۔ اتنے میں دھڑام کی آواز آئی اور پیچھے سے ایک تیسری کار پچھلی گاڑی سے ٹکرا گئی۔ ابھی یہ سنبھلے بھی نہیں تھے کہ چوتھی گاڑی بھی آٹکرائی، پھر پانچویں، پھرچھٹی اورپھرلائن لگ گئی۔ انکل جس گاڑی والے پر برس رہے تھے وہ اطمینان سے نیچے اترا اور انکل سے بولا’کچھ فرمارہے تھے آپ؟‘ انکل کی زبان کو تالالگ گیااور خاموشی سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر نکل گئے۔دھند میں گاڑیوں کاٹکراؤ روکنے کا کوئی فارمولا ابھی تک ایجاد نہیں ہوا۔ ایسے میں حددرجہ احتیاط اور آہستہ رفتار کی ہی ہدایت کی جاتی ہے تاہم انڈیکیٹر بھی جلالیے جائیں تو ایسے حادثات میں بچت ہوسکتی ہے۔میرے ایک انجینئر دوست نے آئیڈیا پیش کیا ہے کہ گاڑیوں میں فرنٹ بمپر پراگر سیدھا مقناطیس اوربیک بمپر پر الٹا مقناطیس لگا دیا جائے تو گاڑی اگلی گاڑی سے کبھی نہیں ٹکراسکتی۔ آئیڈیا اچھا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کسی دوریہ سڑک پر دونوں گاڑیاں آمنے سامنے آجائیں تو اِس جبری ملن کو کون روکے گا؟

٭ ٭ ٭

رانا ممتاز رسول کی کتاب’ملازمت نہیں کاروبار‘ پڑھ کر احساس ہوا کہ مجھے فوراً کوئی کاروبار شروع کرلیناچاہیے۔ایک دو دوستوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے جگتیں مارناشروع کردیں لہٰذافی الحال میں ڈپریس ہوکر اپنا ارادہ ملتوی کر رہا ہوں تاہم راناممتاز رسول کی کتاب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو ملازمت کے ہوتے ہوئے بھی کچھ اضافی انکم کا خواہشمند ہے۔ راناصاحب ملازمتوں کے مخالف نہیں، وہ کہتے ہیں کہ بہت سے ایسے کام ہیں جو ملازمت کے ہوتے ہوئے بھی الگ سے کیے جاسکتے ہیں۔کئی محنتی لوگ صبح اپنی ملازمت پر جاتے ہیں اور شام کو آن لائن ٹیکسی یاموٹرسائیکل چلاکر نسبتاً بہتر گزربسر کرتے ہیں۔اب تو لوگوں کی سہولت کیلئے نئے نئے کاروباری آئیڈیاز متعارف ہوچکے ہیں۔میری عینک ٹوٹ جائے تو مجھے پہلے عینکوں و الی دکان پرجانا پڑتاہے، وہاں نئی عینک کا آرڈر دیناپڑتا ہے اور اگلے دن پھر جاکرعینک وصول کرنا ہوتی ہے۔اس دوران ٹریفک اور پارکنگ کے مسائل کامت پوچھیں۔لیکن کل ایک نیا سین دیکھا۔ ایک صاحب نے اپنی گاڑی میں ہی عینکوں کی دکان کھول لی ہے۔وہ گاڑی چلاتے ہوئے کسی گلی کے موڑ پر رک جاتے ہیں اور گاڑی پر لگے اسپیکر پر اناؤنس کرتے ہیں کہ ارجنٹ عینک بنوائیں۔ نظر ٹیسٹ کرنے کی مشین بھی انہوں نے ساتھ رکھی ہوتی ہے۔ میں نے ان سے اس یونیک کاروبار کی وجہ پوچھی تو ا نہوں نے بتایا کہ میری عینکوں کی دکان تھی لیکن کرایہ ا ور بجلی کا بل بہت زیادہ تھا اس لیے پرافٹ نہیں ہورہا تھا۔پھرمیں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنی گاڑی کو ہی دکان بنا لوں۔ اب پرافٹ بھی اچھا ہے اورلوگ فون کر کے بھی بلالیتے ہیں۔لوگوں کوبھی سہولت ہوگئی ہے اور مجھے بھی۔

٭ ٭ ٭

بھارت میں بہار کے وزیراعلیٰ نیتش کمار کی گھناؤنی حرکت آپ نے ضروردیکھ لی ہوگی۔بھارت میں دیسی طریقہ علاج کی وزارت’آیوش‘ کی جانب سے ڈاکٹروں کواپائنٹمنٹ لیٹر دینے کی تقریب جاری تھی۔اسی دوران ایک مسلمان خاتون نصرت پروین نقاب اوربرقعے میں ملبوس اپناسرٹیفکیٹ لینے کیلئے آئیں تو وزیراعلیٰ کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ابھر آئے اور انہوں نے ناگواری سے کہا’یہ کیاہے‘ اور پھرسب کے سامنے ایک جھٹکے سے خاتون کے چہرے سے نقاب کھینچ دیا۔ یہ ہے وہ وجہ جس کیلئے قائد اعظم نے پاکستان کی شکل میں آزادی لی تھی۔بھارت کامسلمان آج کے جدید دور میں بھی نفرت کا نشانہ بن رہاہے۔جس ملک کے ایک صوبے کا وزیراعلیٰ مسلمانوں سے اتنا خائف ہو وہاں کے عام آدمی کے کیاجذبات ہوں گے۔

تازہ ترین