سال 2025 جاتے جاتے بھی ایک تاریخ رقم کر گیا۔ ابھی 26ویں اور 27ویں آئینی ترمیم ہی میڈیا اورسیاسی حلقوں میں زیر بحث تھی کہ اچانک اس خبر نے اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر بھی دھماکہ کر دیا کہ دنیا کی طاقتور ترین انٹیلی جنس ایجنسی میں سے ایک آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کو اختیارات کے ناجائز استعمال ، آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور سیاست میں مداخلت پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے بعد 14 سال قید با مشقت کی سزا سنا ئی گئی ہے۔ اس فیصلے کی بازگشت تو پہلے بھی سنائی دے رہی تھی مگر فیصلہ آنے کے بعد نظر یہ آ رہا ہے کہ ابھی ’کہانی‘ باقی ہے اور اگر بات آگے گئی تو عین ممکن ہے دور تک چلی جائے۔ اس فیصلے نے یقینی طور پر سیاسی، صحافتی اور دانشوروں کے حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ کیا یہ فیصلہ ایک ’مثال‘ بن سکتا ہےسیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی عدم مداخلت کی۔ بہرکیف اس فیصلے سے ’متاثرین فیض‘ کے حلقوں میں اطمینان اور خوشی تو سمجھ میں آتی ہے مگر جو ’فیض کے دربار‘ سے مستفید ہوتے رہے ہیں وہ بھی اسے ’تاریخی‘ قرار دے رہے ہیں۔
شاید ہماری سیاست میں اس طرح کی مداخلت نہ ہوتی تو آج کئی جماعتوں کا وجود تک نہ ہوتا نہ ہی ایسے لوگ سیاست میں ہوتے جو سیاست کرنا ہی نہیں جانتے تھے۔ جنرل فیض کے فیصلے کی اگرتفصیلات آئیں گی تو اندازہ کیا جائےگاکہ وہ کس حد تک سیاسی معاملات میں ملوث تھے اور وہ کونسے ’آفیشل سیکریٹ‘ تھے جن کو سنگین جرم قرار دیا گیا۔ رہ گئی بات اختیارات کے غلط استعمال کی تو بادی النظر میں اس کا تعلق اسلام آباد میں واقع ایک ہائوسنگ اسکیم سے ہے۔ یہ اہم سوال بھی جواب کا طالب ہے کہ اس پورے دور میں خود اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کیا رول رہا اور وہ خود کس حد تک سیاست میں مداخلت کرتے تھے ۔
یہ مقدمہ اور فیصلہ ہماری سیاست کو اہم سنگ میل کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اگر اسے سیاست یا سیاسی معاملات میں عدم مداخلت کی ایک مثال بنایا جائے اور ملک کے سیاسی معاملات سیاستدانوں اور جماعتوں پر چھوڑ دیے جائیں۔ اس میں اہم ترین کردار خود سیاستدانوں اور جماعتوں کا بھی ہے جو کبھی ’درباری بننے‘ کو تیار رہتے ہیں اور کبھی ’متاثرین‘ کہلائے جاتے ہیں۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ کسی کو آرمی چیف بنانے یا نامزد کرنے میں بھی ہمارے سویلین حکمراں سمجھتے ہیں کہ اگر فلاں آجائے تو میرا اقتدار بچ جائے گا اور پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہی چیف آپ کو گھر بھیج دیتا ہے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اسی طرح آئی ایس آئی چیف کی تقرری بھی ہمارے یہاں ’فرنٹ پیچ‘ کی نمایاں خبر رہی ہے جس سے ملک کی سیاست کی سمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ اب یہ خود ادارے اور حکومت کا کام ہے کہ وہ جنرل فیض حمید کی سزا کو کس حد تک سیاست میں عدم مداخلت کی ’مثال‘ بنائیں گے۔ خیر موجودہ حکمراں تو خود ایک ’مثال‘ ہیں اور اپنے آپ کو ’متاثرین فیض حمید‘ سمجھتے ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف مارچ 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کے پیچھے جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام آتا ہے۔
ویسے تو ہماری تاریخ سیاست میں مداخلت سے بھری پڑی ہے مگر اس میں سب سے نمایاں نام ISI کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کا آتا ہے میاں نواز شریف کی’سیاسی تربیت‘ سے لے کر عمران خان تک ۔ گل مرحوم کی دیدہ دلیری تو یہ تھی کے وہ اس سے انکاری بھی نہیں تھے پھر بھی نہ کوئی سویلین حکومت نہ خود ان کا اپنا ادارہ ان پر مقدمہ چلا سکا۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید کی بدقسمتی یہ رہی کہ اس کے باوجود کہ حمید گل نے ان کی ’دو تہائی ‘ اکثریت روکی، وہ ایک مشروط حکومت بنانے پر تیار ہوئیں پھر بھی چند ماہ بعد ہی انہیں ہٹانے کا کام شروع ہو گیا۔ میں نے کئی بار یہ بات کہی بھی ہے اور لکھی بھی کہ اگر اصغر خان کیس کے فیصلے پر عمل درآمد ہوتا تو آج فیض حمید جیل میں نہ ہوتے۔ خیر اگر اس کیس کو مثال بنا لیا جاتا تو شاید آج سیاست کی بھی کوئی سمت ہوتی اور سیاست میں مداخلت بھی نہ ہوتی۔ مگر اس ملک میں ہر کام ہی ’قومی مفاد‘ میں ہوتا ہےکسی کو اقتدار سے ہٹانے کا بھی اور لانے کا بھی۔
خود عمران خان کو آج جس صورت حال کا سامنا ہے اس کے بھی ذمہ دار بادی النظر میں فیض حمید ہی نظر آتے ہیں ، کیونکہ اس تنازع کی ابتدا خان صاحب اور جنرل باجوہ کے درمیان اختلافات اور بڑھتی کشیدگی سے ہوئی اور بات فیض حمید کے بطور آئی ایس آئی چیف ٹرانسفر تک آ گئی۔ غالباً یہ بات اکتوبر2021 کی ہے جب خان صاحب نے جنرل باجوہ کی بھیجی ہوئی ’سمری‘ روک لی۔ خود خان صاحب کے بقول وہ جنرل فیض کو آرمی چیف نہیں بنانا چاہتے تھے بلکہ انہیں افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر دسمبر2021 تک رکھنا چاہتے تھے۔ اگر بات ’سیاست میں مداخلت‘ کی آتی ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ جنرل باجوہ کے کردار کو نظر انداز کیا جائے چاہے بات 2018 کے الیکشن کی ہو یا عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی۔ رہ گئی بات 9مئی 2023کی تو جنرل فیض اور عمران خان مشکل میں آ سکتے ہیں۔
پتا نہیں کیوں جب سے جنرل فیض کو سزا ہوئی تو مجھے اپنا جامعہ کراچی کا دوست میرحاصل بزنجو بہت یاد آ رہا ہے۔ اسے کبھی یہ غلط فہمی نہیں تھی کہ وہ اور اس کا گروپ یعنی اپوزیشن سینٹ میں اکثریت ہونے کے باوجود چیئرمین سینٹ کا الیکشن جیت جائیں گے۔ اس لیے جب الیکشن سے ایک رات پہلے میں نے اسے فون کر کے پیشگی مبارک باد دینے کی کوشش کی تو ہنس کر کہنے لگا۔ ’’یار مظہر، ہمارے بہت سے سینئر فیض یاب ہو گئے ہیں باقی لائن میں ہیں۔‘‘
فیض حمید کو سزا ہوئی تو ’متاثرین‘ کا خوشی منانا سمجھ میں آتا ہے مگر یہاں تو وہ بھی سزا کو انصاف اور قانون کی فتح قرار دے رہے ہیں جو کل ’دربار فیض‘ میں روز حاضری دیتے تھے۔ لوٹا کریسی اسی کو کہتے ہیں۔ فیض حمید کی سزا اک سبق بھی ہے اور مثال بھی مگر کیا یہ مداخلت کا راستہ روک پائے گی؟