آج پھر وہ سال بھر کے بعد سج دھج کر آرہی ہیں۔ آپ سے ملنے اور آپ کے ساتھ آپ کے گھر جانے کیلئے ۔اس بار خدشے تھے کہ کتاب میلہ ہوگا کہ نہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی خبریں آ رہی تھیں، دل اداس ہو رہا تھا۔ جناب عزیز خالد سے بھی بات ہوئی، دوسرے منتظمین سے بھی ۔کتاب میلہ تو کراچی کی پہچان بن چکا ہے۔ یونیورسٹی روڈ پر ہزار کھدائی ہو۔ راستے بند ہوں۔ یہ میلہ ایکسپو سینٹر میں ہمیشہ بھرپور رونقیں لے کر آتا ہے ہم تو 2005 سے اس کے عشق میں بندھے ہوئے ہیں۔ کیسے کیسے لوگ کیسی کیسی ہستیاں دیکھیں۔ ایسا میلہ جناب قیصر زیدی کا بھی خواب تھا کتاب کے عاشق سید قیصر زیدی بھی پچھلے دنوں لاہور میں خالق حقیقی کے ہاں حاضر ہو گئے۔ کتاب کے فروغ کیلئے ان کی جدوجہد منصوبہ بندی لائق رشک تھی انہوں نے ویلکم بک پورٹ کی بنیاد اردو بازار میں رکھی انکا سب سے اہم کارنامہ تھا کہ پاکستان کےاخبارات رسائل کتابیں دنیا بھر میں برآمد کیے سعودی عرب، دبئی تو سب سے بڑے مراکز تھے،امریکہ کینیڈا ،برطانیہ دوسرے یورپی ملکوں ،آسٹریلیا میں پاکستانی اخبارات کی ترسیل ہوتی ۔ اللہ تعالی سید قیصر زیدی کے درجات بلند فرمائے ۔کتاب میلےکیلئے اردو برقی خوشنویسی کے خالق احمد جمیل مرزا کے صاحبزادے اویس بھی پیش پیش رہتے تھے، قادر متین سید اصغر زیدی پیر اماؤنٹ والے اقبال صالح آکسفورڈ لبرٹی اب اٹلانٹس۔ کراچی کا یہ کتاب میلہ پاکستان کا تو سب سے بڑا میلہ ہے ہی مگر دنیا کے بھی بڑے کتاب میلوں میں شمار ہوتا ہے۔ سمندر پار پاکستانی جو کتاب سے محبت کا دم بھرتے ہیں وہ بھی کتاب میلے کی مناسبت سے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ کراچی کا سفر اختیار کرتے ہیں ۔ عام طور پر کہہ دیا جاتا ہے کہ لوگ کتاب سے دور ہو گئے ہیں اب کتابیں اتنی نہیں پڑھی جاتیں لیکن ہر سال دسمبر کے ان دنوں میں یہ سارے تجزیے خدشات اقوال زریں دم توڑ دیتے ہیں۔ جب ایکسپو سینٹر کے ہال ایک دو تین میں کتابیں اپنے گھر رخصت ہونےکیلئےاسٹالوں پرریکوں میں سجتی ہیں پاکستان بھر سے بڑے چھوٹے پبلشرز اپنی اپنی کتابیں لے کر یہاں پہنچتے ہیں۔ غریب پاکستانی متوسط طبقے کے ہم وطن تھیلے بھر بھر کر کتابیں خرید کر لے جاتے
ہیں ان میں کمسن بچے بھی ہوتے ہیں اپنی ماؤں کی گود میں،وہیل چیئر پر معمر پاکستانی بھی بعض احباب سے تو ہماری ملاقات سال کے سال یہیں ہوتی ہے۔سالہا سال سے ہمارے کالم پڑھنے والے بھی یہی سال بھر کے بعض کالموں پر تبصرے کرتے ہیں،یہیں یہ تاثر بھی باطل ہو جاتا ہے کہ اب اخبار نہیں پڑھے جاتے۔ہم اتوار کے کالم میں لکھتے تھے کہ آج اتوار ہے اپنے بیٹے بیٹیوں پوتے پوتیوں نواسوں نواسیوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کا دن۔ دو سال پہلے اسی کتاب میلے میں روزنامہ ’’جنگ‘‘کے ایک معزز قاری نے مشورہ دیا کہ اس میں بہوؤں دامادوں کو بھی شامل کر لیں۔ کتاب میلے ہم نے امریکہ کینیڈا دہلی بیجنگ میں بھی دیکھے ہیں اور یاد آیا ایک کتاب نمائش تہران میں بھی دیکھی تھی پاکستان کا سٹال بھی ہم نے ہی منظم کیا۔ کتاب اور قاری کا رشتہ ان میلوں کے ذریعے اور زیادہ مستحکم ہوتا ہے کینیڈا، امریکہ ،یورپی ممالک میں تو بڑے میڈیا گروپ اپنی سبسکرپشن بڑھانے کیلئے بڑی مہم چلاتے ہیں خریدار بننے والوں کو قیمتی تحائف سے بھی نوازتے ہیں ۔ کراچی کے اس کتاب میلے میں وہ مناظر انتہائی ولولہ انگیز ہوتے ہیں جب اسکول بسیں بچوں بچیوں کو لے کر پہنچتی ہیں طویل قطاریں لگتی ہیں داخلے کیلئے اور پھر جب یہ پھول اور غنچے مختلف ہالوں میں کھلتے ہیں۔ کتابوں کے سٹالوں پر ان کے سوالات بہت دلچسپ ہوتے ہیں اکثر بچوں کو انکے والدین اس دن کتابوں کی خرید کیلئے باقاعدہ پیسے دے کر بھی بھیجتے ہیں ۔ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ کراچی کے امیر علاقوں سے بچے کم آتے ہیں زیادہ تر آنے والے غریب اور متوسط علاقوں سے ہوتے ہیں ۔ اسکولوں کے ساتھ ساتھ دینی مدارس سے بھی طالب علموں کی بڑی تعداد شلوار قمیض ٹوپی یا پگڑیمیں نظر آتی ہے ان میں بھی ہر عمر کے بچے ہوتے ہیں مذہبی کتابیں تو ان کو اپنے مدارس میں ہی مل جاتی ہیں یہ یہاںمعلوماتی کتابیں زیادہ خریدتے ہیں ۔ہمارا اپنا سٹال بھی یہاں ہوتا ہے اس لیے ہمیں زیادہ قریب سے مشاہدے کا اتفاق ہوتا ہے ۔ایک سال لیاری کےایک اسکول کےایک بچے کو ایک کتاب اچھی لگی تو ہم نے اس کا اشتیاق دیکھ کر کتاب کی قیمت کافی کم کر دی۔ چند لمحوں بعد وہ تین اور ہم جماعت ساتھ لے آیا تینوں نے بھی وہی کتاب خریدی۔ ہم اپنے سٹال کے سامنے بچوں سے چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنے کا مقابلہ بھی کرواتے ہیں۔ جن میں انکے اپنے سکول کے یا کتاب کے موضوع پر وہیں بیٹھ کر لکھنے کیلئے کہا جاتا ہے پھر ان کو تحائف سے بھی نوازا جاتا ہے۔ بہت سے کتاب پسند ایسے ہوتے ہیں جو سال بھر اس میلے کا انتظار کرتے ہیں ۔ عام دکانوں سے نہ ملنے والی کتابوں کی فہرست ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ایک ایک اسٹال پر وہ ان کتابوں کی دھن میں جاتے ہیں ڈھائی کروڑ سے زیادہ آبادی کے شہر سے تو لاکھوں لوگ آتے ہی ہیں قریبی شہروں سے بھی معمر، نوجوان ہم وطن ملتے ہیں ۔اردو کے علاوہ سندھی بلوچی پنجابی، پشتو ،سرائکی، براہوی میں کتابیں بھی میسر آتی ہیں۔ قومی سیاسی جماعتوں کے کتاب دوست بھی کتاب کی تلاش میں نظر آتے ہیں ۔ہر سال جماعت اسلامی کا اپنا اسٹال تو ہوتا ہی ہے لیکن انکے لیڈر مقامی اور صوبائی سب سے زیادہ بڑی تعداد میں آتے ہیں ان کے بعدجمعیت علماء اسلام کے پھر عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان کی ساری پارٹیوں کے بھی۔ بلوچستان میں جو کتاب میلے گوادر تربت پشین کوئٹہ قلات میں سجتے ہیں۔ وہاں بھی کئی کئی لاکھ کی کتابیں بکتی ہیں اور پڑھی بھی جاتی ہیں اسی لیے بلوچستان والوں سے بڑے لوگ ڈرتے بھی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دور دراز کے چھوٹے شہروں میں کتابیں پڑھنے والے بڑے شہروں سے زیادہ ہیں کتاب کے دو تین عاشق ایسے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ پہیوں والا خالی کارٹ لے کر آتے ہیں جو جاتے وقت بھرا ہوا ہوتا ہے۔یہ میلہ پاکستان کا سب سے روشن چہرہ دکھاتا ہے۔ ہماری آئینی ترامیم کی شہرت رکھنے والی وفاقی حکومت اگر کسی ادارے کو باقاعدہ ذمہ داری دے تو اس میلے سے پاکستان کے بہت اچھے اشاریے مل سکتے ہیں کہ کس موضوع پر کس عمر کے پاکستانیوں نے کون سی کتابیں خریدیں پاکستانی مصنف اور محقق کون سی کتابیں لکھ رہے ہیں اور پاکستان کے قارئین کیا پڑھ رہے ہیں؟