• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں بعض موضوعات ایسے ہیں جن پر بات کرنے سے پہلے انسان کو وضو بھی کرنا پڑتا ہے اور نیت بھی باندھنی پڑتی ہے۔ ان میں ایک موضوع’’دوسری بیوی‘‘ بھی ہے۔ دوسری بیوی کوئی عام بیوی نہیں ہوتی، یہ دراصل ایک مکمل ادارہ ہے، جسکے ذیلی شعبہ جات میں خوف، جرأت، فلسفہ، نفسیات، جغرافیہ اور بعض اوقات قبرستان بھی شامل ہوتا ہے۔ دوسری بیوی کا تصور سنتے ہی مرد کے چہرے پر ایک ایسی مسکراہٹ آتی ہے جیسے بچے کے ہاتھ میں نیا کھلونا آ جائے، اور عورت کے چہرے پر وہ تاثرات نمودار ہوتے ہیں جو عموماً لوڈشیڈنگ کے اعلان پر آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسری بیوی کا خیال ہمیشہ مرد کو آتا ہے، مگر اس کے اثرات پورے خاندان کو بھگتنا پڑتے ہیں، حتیٰ کہ محلے کی خواتین بھی اس میں فریق بن جاتی ہیں۔ دوسری بیوی کا شوق عموماً تین مرحلوں میں پروان چڑھتا ہے۔پہلا مرحلہ:’’اسلام نے اجازت دی ہے۔‘‘یہ جملہ مرد اس یقین سے ادا کرتا ہے جیسے اسلام نے خاص طور پر اسی کیلئے یہ اجازت رکھی ہو، باقی دنیا محض تماشائی ہو۔دوسرا مرحلہ:’’میں انصاف کر سکتا ہوں۔‘‘یہ دعویٰ وہی مرد کرتا ہے جو پہلی بیوی کی سالگرہ بھی یاد نہیں رکھ پاتا اور بچوں کے ناموں میں بھی کبھی کبھی گڑبڑ کر بیٹھتا ہے۔تیسرا مرحلہ:’’دوسری بیوی سے گھر کا ماحول بہتر ہو جائے گا۔‘‘یہ مرحلہ وہیں ختم ہو جاتا ہے جہاں پہلی بیوی چائے کا کپ زور سے میز پر رکھتی ہے۔ دوسری بیوی کے منصوبے اکثر دوستوں کی محفل میں بنتے ہیں۔ وہی دوست جو خود شادی شدہ ہو کر بھی کنواروں جیسی نصیحتیں کرتے ہیں۔ ایک دوست کہتا ہے:’’بھائی! زندگی ایک ہی بار ملتی ہے۔‘‘ دوسرا کہتا ہے:’’میں تو کہتا ہوں ابھی جوانی میں کر لو، بڑھاپے میں ہمت نہیں رہے گی۔‘‘حالانکہ ان دونوں کی اپنی بیویوں نے انہیں دس بجے کے بعد گھر سے نکلنے پر بھی غیر اعلانیہ پابندی لگا رکھی ہوتی ہے۔ پہلی بیوی کو جب دوسری بیوی کے’’ارادے‘‘کی بھنک پڑتی ہے تو وہ فوراً فائل کھول لیتی ہے۔ اس فائل میں شوہر کی گزشتہ بیس سالہ کوتاہیاں، تنخواہ کی رسیدیں، بچوں کے اسکول کے بل، اور وہ تمام وعدے شامل ہوتے ہیں جو شوہر نے ’’اگلے مہینے‘‘ پورے کرنے تھے۔ یہ فائل عام حالات میں بند رہتی ہے، مگر دوسری بیوی کے ذکر پر خود بخود کھل جاتی ہے۔ دوسری بیوی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف شادی نہیں ہوتی، بلکہ ایک موازنہ بھی ہوتی ہے۔’’دیکھو جی، نئی بیوی نے تو یہ کھانا کمال بنایا ہے۔‘‘اس جملے کے بعد مرد کو احساس ہوتا ہے کہ شاید اس نے اپنی قبر خود کھود لی ہے، مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ کچھ حضرات دوسری بیوی کو روحانی مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ کہتے ہیں:’’دل نہیں مان رہا، شاید یہ اللّٰہ کی طرف سے اشارہ ہے۔‘‘ہمیشہ یہ اشارہ کسی نوجوان، حسین اور بے حد سمجھدار خاتون کی طرف ہی کیوں آتا ہے، کسی پچپن سالہ بیوہ آنٹی کی طرف کیوں نہیں؟ اس سوال کا جواب آج تک کسی مرد کے پاس نہیں۔ دوسری بیوی کے بعد مرد دو گھروں کا شہری بن جاتا ہے۔ ایک گھر میں وہ کہتا ہے۔ ’’میں دیر سے آؤں گا، ذرا مصروف ہوں۔‘‘اور دوسرے گھر میں کہتا ہے۔’’میں جلدی نکلوں گا، ذرا مسئلہ ہے۔‘‘یوں وہ دونوں گھروں میں مصروف بھی ہوتا ہے اور مسئلہ بھی۔ سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ دوسری بیوی کے بعد مرد خود کو بڑا مظلوم سمجھنے لگتا ہے۔ کہتا ہے۔ ’’یار، دو دو گھروں کا بوجھ ہے۔‘‘حالانکہ یہ بوجھ اس نے خود ہی شوق سے اٹھایا ہوتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے شادی کے وقت’’ڈی جے‘‘ کی آواز کا شوق بعد میں سر درد بن جاتا ہے ۔کچھ عرصے بعد دوسری بیوی بھی پہلی بیوی جیسی ہی ہو جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ پہلی بیوی یہ سب کچھ تجربے سے جانتی ہے، اور دوسری بیوی سیکھ رہی ہوتی ہے۔ مرد اس مرحلے پر سوچتا ہے کہ شاید تیسری بیوی کا تصور بھی برا نہیں، مگر پھر بجلی کا بل دیکھ کر یہ خیال خود ہی دم توڑ دیتا ہے۔ آخر میں گزارش یہ ہے کہ دوسری بیوی کرنا کوئی جرم نہیں، مگر یہ ایک اعلیٰ درجے کا امتحان ضرور ہے۔ اس امتحان میں زیادہ تر پرچے پہلی بیوی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، اور رزلٹ ہمیشہ اسی کے پاس۔اور ہاں، اگر آپ یہ کالم پڑھ کر بھی دوسری بیوی کا ارادہ رکھتے ہیں تو خدا آپ کا حامی و ناصر ہو...اور آپ کی پہلی بیوی کا بھی۔

تازہ ترین