• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے پناہ فلو، نمونیہ اور کھانسی ، وہ بھی خشک ، میں ایک مہینے سے اسی مرض میں مبتلا ہوں۔ کالم عادتاً نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی سناکر آپ سے پوچھتی ہوں کہ ہم پاکستان کو کہاں لے جارہے ہیں۔

’’ ایک تو ڈاکٹروں کے نسخے اور پھر لمحہ لمحہ لگتے ہوئے ڈرپ بچوں کا حال پورے ملک میں اس لئے زیادہ دِگرگوں ہے کہ کہیں ڈرپ نہیں کہیں انجکشن نہیں۔پنجاب اور سندھ میں اشتہاری مہم اپنی جگہ لیکن کہیں نرس نہیں تو کہیں ڈاکٹر نہیں۔ اندرون سندھ اور دیہی پنجاب میں اکثر جگہ ڈسپنسریاں موجودنہیں ۔ ویسے بھی ہم انگریزی دوائیوں کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ ہمیں دیسی دوائیاں کوئی زبردستی بھی کھلادے توہماراان پر ایمان نہیں۔ دیسی یعنی ہربل دوائیاں مغرب میں بہت مقبول ہیں۔ ہمارے ڈاکٹر بھی اگر تھوڑی سی توجہ اپنی فیس کم کرکے، دیسی ملٹھی، منقہ، لونگ ، ہلدی اور کالی مرچ کا کاڑھا بنانے کا طریقہ بتادیں۔ دار چینی ، آملہ اور تلوں کے استعمال کے مشورے دیں۔ تو کم خرچ بالا نشیں ہوسکتا ہے مگر ڈاکٹر تو بس انجکشن لگواؤیا دوا کھائو، ٹھیک ہوجاؤ۔

ذرا حکیموں کی بات بھی کرلیں۔ انکے نسخے اتنے مہنگے کہ انکے کلینک جانا بے سود ٹھہرتا ہے یوں تو پنساریوں کے پاس بھی بزرگوں کے نسخے ہوتے ہیں مگر ڈاکٹروں کے کلینک ہمارےبڑھاپے کھا رہے ہیں۔

ہر چند صوبہ سندھ اور پنجاب میں صحت کے معاملےبہت بہتر ہورہے ہیں۔ مگر ایک بات جس پر ہماری کمزوری ہے وہ ہے آبادی کا بے پناہ بڑھتادبائو۔یہاں سماج کی قدیم سوچ معاشرے کی آبادی کا تناسب کم ہونے نہیں دیتی ۔اب تو ساری دنیا شور مچا رہی ہے کہ پاکستان میں کسی طرح آبادی کی رفتار کو کم کریں۔ سوال یہ ہے کہ دوہزار کے قریب مساجد کےائمہ کو تنخواہ بھی دی جارہی ہےتوکیوں نہ ہر علاقے کی مسجد میں مردوں کے لئے احتیاط کے طریقوں کی باقاعدہ تربیت دی جائے،بلکہ ہر امام مسجد کو ذمہ داری دی جائے، احتیاط پر عمل کو یقینی بنائیں۔ یہ کوششیں نہیں ہوئیں تو پاکستان میں بھوکے بچے اورکمزور ماؤں کی تعداد مزید بڑھ جائے گی ۔ اس وقت بھی میں دیہات میں جاتی ہوں تو ہر گھر میں7سے9بچے نظر آتے ہیں۔ شہروں میں تو پڑھے لکھے لوگ دوبچوں کے بعد فل اسٹاپ لگارہے ہیں۔تاہم شہروں میں بھی بہت سےمذہبی افراد احتیاط کو گناہ سمجھتے ہیں۔

میرے دیہات کے لوگ جب باہر سے ڈالر کماکر واپس آتے ہیں تو آج کل شادیوں کے سیزن میں بارات پہ ہزاروں یورو اور ڈالر لٹانا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ اب تو پہلے بچے کی پیدائش پر (اگر بیٹا) ہو تو یونہی پیسہ لٹاتے ہیں۔ شادیوں اور فوتیدگی میں بھی اسی طرح دیگیں چلتی ہیں مگر مجھے کچھ علاقوں کے بزرگوں نے سمجھایا کہ تین دن میں دیگیں دیکر اعلان کرتے ہیں کہ آج ہی چالیسواں ہوگیا۔ یوں لوگ گھروں کو جاتے ہیں۔

صحت کو اپنا رستہ بدلنے دیں۔اب جو ہمیں روز لاہور اور کراچی میں بجلی والی بسیں اورٹرینیں چلتی نظر آتی ہیں تودیہی لوگ اپنے چھکڑے دیکھ کر فوراً کہتے ہیں، سرکار ہمیں ایسی مشین کب دےگی اور دل ہی دل میں بڑبڑاتے ہیں کہ شہر والےالیکٹرک بسیں بے شک چلائیںمگر ہمیں کم ازکم کچی یا پکی سڑک تودیدیں، صاف پانی اور گیس دیں کہ ہماری غربت بھی کچھ کم ہو۔

بہت سے دیہات خاص کر بلوچستان اور سرحدی علاقوں میں تو سڑکیں بھی نہیں۔اربن اور رورل ہر دوجگہوں کے بجٹ کو مساوی تقسیم سے جاری کریں۔ یہ نہ ہو کہ جیسے آئی۔ ایم۔ایف نے شکایت کی ہے اور حکومت کو سرزنش کی ہے کہ الابلا کےبجائےفنڈز تعمیری منصوبوں پرخرچ کریں۔ ہمارے ہر محکمے میں اب بھی فالتو عملہ ہے۔ اس کو کم افرادی طور پر نہیں موجود افراد کو تکنیکی اسکل سکھائیں اور عملہ کو اعتماد دیں اور پورا پروپوزل بنانے کا حوصلہ دیں۔

صحت اور سڑکوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے ہماری حکومت آگاہ ہے ، مگر ایک بلا جو پورے ملک پر چھائی ہوئی ہے، وہ دکھاوا، فیشن اور شادیوں کا سلسلہ ہےجو ہفتوں تک جاری رہتا ہے۔ ہر غریب یا امیر لڑکی پارلر سے دلہن بن کر آتی ہے، اور پھر زیورات کی بھرمار، سونا اس قدر مہنگا ہوگیا ہے کہ نقلی سونے کو بھی پرلگ گئے ہیں، پھر ان ساری سجاوٹوں کی ٹیلی وژن اور اخباروں میں تفاصیل، کھانوں اور مہمانوں کی تعدادکی بھی بندش کرنی پڑےگی۔ ہماری فلم ایکٹرسوں کی شادی ہوتی ہےاور میڈیا میں مہندی اور مایوں کی رسموں کی پبلسٹی ہوتی ہے ۔جہیز کی نمائش اور کھانوں کی تعداد دیکھ کر اوسط آمدنی والے پریشان ہوتے ہیں۔

پھر سرکار کے اپنے ممبران کو خوش رکھنے کے لئے روز ڈنر، روز ناشتے، بلکہ ان وزیروںکے کام تھوڑے ہیں کہ وہ شادیوں میں بھی وقت ضائع کریں۔ایک اور درخواست ، سرکاری یا شادیوں کے کھانے میں دیسی کھانے ہوں، مقامی ثقافت کو فروغ دیں۔ مگر متضاد یہ ہے کہ ہر جگہ باربی کیو ہورہا ہوتا ہے اور آخرمیں وزیر اعظم کو مشورہ!براہ کرم دورے کم تجارت زیادہ کریں۔ ابھی تو ڈیڑھ سوپارٹیاں مایوس ہوکر واپس جاچکی ہیں ویسے جہاں نہ گیس ہو نہ پانی، نہ بجلی ، مذاق نہیں سچ کا سامنا کریں۔ دورے بس کریں۔ کام کریں روز ایک نئی کمیٹی بناکر خرچے مت بڑھائیں۔

تازہ ترین