• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس سے پوچھیں وہ کسی نہ کسی بدنصیبی کاشکارنظرآتاہے۔ریڑھی پرتکے کباب بنانیوالے نے آہ بھربتایا کہ سامنے مین روڈپرجوبڑی سی بلڈنگ نظرآرہی ہے یہ پلاٹ 1950 میں اُس کے داداجی کاتھاجنہوں نے صرف ڈیڑھ سوروپے میں بیچ دیا، کاش وہ یہ غلطی نہ کرتے۔ میں نے پوچھا آپکو پتاہے کہ تب ڈیڑھ سو روپے کتنی بڑی رقم ہوتی تھی؟ سرجھٹک کربولا’جوبھی ہو، دادا جی کو جیسے تیسے کرکے یہ پلاٹ بچالیناچاہیے تھا‘۔رکشے والے کی بدنصیبی یہ نکلی کہ جوانی میں اسے ایک امیر بیوہ نے شادی کی آفر کی تھی جسے اس نے اپنی محبت کومدنظررکھتے ہوئے بے نیازی سے ٹھکرا دیاتھا۔ اب چالیس سال بعد و ہ کف افسوس مل رہا تھاکہ بیوہ پانچ سال بعد ہی اللّٰہ کوپیاری ہوگئی تھی اور جس بندےنےاُس سے شادی کی تھی وہ آج ٹرانسپورٹربنابیٹھاہے۔گاڑیوںکےشوروم والااپنی بدنصیبی پرکڑھتانظرآیاکہ اس نے دوست کے کہنے پر پارٹنر شپ نہ کی ہوتی توآج پوراشوروم اُس کی ملکیت ہوتا۔ ہماری زندگیوں میں ہزاروں چھوٹی چھوٹی خوشیاں رقص کرتی پھرتی ہیں لیکن ہمیں صرف بدنصیبی نظر آتی ہے اوریوں لگتاہے جیسے یہی ہماری زندگی کاالمیہ ہے۔ اصل میں بدنصیبی سنانے کارواج پڑگیاہے۔اچھا نہیں لگتاکہ سب اپنی اپنی بدنصیبی سنارہے ہوں اور ایک بندہ خاموش رہے۔ان سب بدنصیبیوں میں ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ یہ ہماری وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور کی وجہ سے ہوئی ہوتی ہیں۔چونکہ ہم توغلطی کرہی نہیں سکتے لہٰذاہماری زندگی میں جوبھی دُکھ یاکمی ہے اُس کا سبب کوئی اور ہے۔اُسی کوکوسناچاہیے۔

٭٭٭

نام کیسا ہونا چاہیے؟ یہ ہے اہم سوال....کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نام ایسا ہونا چاہیے جس کا مطلب اچھا ہو، اس کے برعکس ایک رائے ہے کہ نام کی ساؤنڈ اچھی ہونی چاہیے۔ یہ دونوں طریقے آزمائے جاچکے ہیں۔ ویسے ہمارے ہاں جو لوگ اپنے بچے کا بالکل نیا نام رکھنا چاہتے ہیں وہ بھی ’برانڈ نیو‘ نام رکھنے کی جرات نہیں کر پاتے لہٰذا اکثر جب وہ بچے کا انوکھا سا نام دنیا کو بتا رہے ہوتے ہیں تو حقیقت میں کہیں سے سن چکے ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں ہر وہ نام نیا شمار ہوتاہے جو پہلے سے کوئی رکھ چکا ہو۔خود میرا نام میری نانی نے رکھا تھا اور میں ان سے پوچھ پوچھ کے تھک گیا کہ انہوں نے یہ نام سنا کہاں سے تھا؟ لیکن انہیں کچھ یاد نہیں تھا‘ بس اتنا بتایا کرتی تھیں کہ کسی سے سنا تھا۔چلیں انہوں نے تو سن لیا اور رکھ بھی دیا‘ لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ اِس نام نے کہاں کہاں میرا بیڑا غر ق کروایا ہے۔ایک دفعہ ایک معروف ٹی وی چینل والوں نے مجھے ایک پراجیکٹ کیلئے کراچی بلوایا اور جہاز کا ٹکٹ بھی بھجوایا۔ ایئرپورٹ پر بورڈنگ لاؤنج کراس کرتے ہی اچانک چھ سات سیکورٹی والے بھاگتے ہوئے آئے اور میرے گرد گھیرا ڈال لیا۔میرے پسینے چھوٹ گئے۔ پتا چلا کہ میں کسی خاتون کے ٹکٹ پر سفر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں نے ٹکٹ دیکھا اور سر پیٹ لیا‘ نام کی جگہ لکھا تھا’مسز گل نوخیزاختر‘۔ بڑی قسمیں کھائیں‘ شناختی کارڈ دکھایا‘ اپنی دو دن کی بڑھی ہوئی شیودکھائی کہ بھائی میں مرد ہوں اور میں ہی گل نوخیز ہوں لیکن کوئی ایک بھی نہ مانا‘ ایک نے تو قدرے مشکوک انداز میں ساتھ والے سے کہا’لگتا ہے اپنی کسی گرل فرینڈ کا ٹکٹ چوری کرکے لایا ہے‘۔

٭٭٭

سب کو خوش رکھنا صرف ایک صورت میں ہی ممکن ہے جب آپ باقاعدہ منافق بن جائیں اور ہر ایک کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دیں‘ لیکن اس طریقے میں بھی مصیبت ہے کہ بعض اوقات دونوں فریقین اکٹھے سامنے آجائیں تو بندہ کس کی حمایت کرے؟خاندانی جھگڑوں سے عام زندگی کے معاملات تک جو لوگ آپ سے بظاہر خوش ہیں وہ بھی اندر سے ناخوش ہیں۔ آپ بے شک ساری زندگی کسی کی خوشی کیلئے اس کے ساتھ ساتھ رہیں لیکن اگر ایک لمحہ بھی آپ سے چُوک ہوگئی تو پچھلی ساری محنت رائیگاں ہوجاتی ہے اور موصوف ناراض ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب یہ طے کر لیا جائے کہ خوش ہونا ہمارا حق اور ہمیں خوش کرنا دوسرے کا فرض ہے تو ایسا ہی ہوتاہے۔ سب کو خوش کرنے کی کوشش میں انسان ذہنی مریض بن جاتاہے لیکن کسی کو خوش نہیں کر پاتا۔ رشتہ دار اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ انکے ساتھ آپ کے کتنے اچھے تعلقات ہیںِ، وہ اس بات پر ناراض ہوجاتے ہیں کہ ان کے مخالف سے آپ کے اچھے تعلقات کیوں ہیں۔ آج کل تو لوگ اس بات پر بھی ناراض ہوجاتے ہیں کہ آپ ترقی میں ان سے آگے کیوں نکل گئے ہیں۔ میرا ایک کولیگ اس بات پر اپنے ماموں زاد سے سخت ناراض ہے کہ خود اس کے پاس ہزار سی سی گاڑی ہے لیکن ماموں زاد نے 13 سو سی سی گاڑی کیوں خرید لی ہے۔ بقول شخصے ”اگر آپ سب کوخوش رکھنا چاہتے ہیں تو سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ مرجائیں“۔

٭٭٭

ایک دور تھا جب شادی سے پہلے لڑکے کی تعلیم، ذاتی گھر اور تنخواہ دیکھی جاتی تھی۔آج کل حسا ب الٹا ہوگیا ہے۔ اب یہ ساری ذمہ داری لڑکیوں کے کاندھوں پر آن پڑی ہے۔ اب ایسی لڑکی پسندیدہ سمجھی جاتی ہے جو اچھی جاب کرتی ہو اورشوہرکواس کے گھرو الوں سمیت پال سکے۔ اب لڑکے کی بجائے لڑکی کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا زیادہ اہم بنتا جارہا ہے۔ کم آمدنی والے لڑکوں کو خود بھی احساس ہوگیا ہے کہ شادی ایک بزنس ہے اور اگر وہ تھوڑی سی کوشش کریں توبیوی ان کی زندگی کی تمام مادی خواہشات پوری کر سکتی ہے۔ لڑکیاں مسلسل تعلیم حاصل کرتی جارہی ہیں، اعلیٰ عہدوں پر پہنچ رہی ہیں اور یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ جدید دور کے مطابق اچھا رشتہ مل سکے اور لڑکے والوں کو خوش رکھا جاسکے۔ اکثرلڑکیاں اچھی تعلیم اور نوکری حاصل کرنے کے بعد جب شادی کیلئے آمادہ ہوتی ہیں تو پتا چلتاہے کہ ان کی عمر زیادہ ہوچکی ہے، تب انہیں جوڑ کا رشتہ نہیں ملتا تو ایسے لڑکوں کی لاٹری نکل آتی ہے جو بیوی کی شکل میں پیسے کمانے والی مشین کی تلاش میں ہوتے ہیں۔

تازہ ترین