• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہےاور اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے،کسی سے کیا گلہ، کیسی شکایت؟ سلام ہے ان بہروپیوں پر جو دھوکے کے فن کو ہنر میں بدل چکے ہیں۔ سلام ان چلتروں پر جو جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کردیتے ہیں اور خاص سلام ان پر جو اس خیالی جنت کی حوریں اور فرشتے بن کر پاک بازی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ واہ واہ مستقبل کی تاریخ ان پر قہقہے لگائیگی حالانکہ حال کے بادشاہ وہی ہیں۔

پوری انسانی تاریخ میں بھگوڑے کبھی بہادر نہیں ٹھہرے مگر آج کی بوالعجبی دیکھیے کہ آج کل بھگوڑے سب سے بہادر تصور کیے جارہے ہیں اور وہ جو مٹی ہیں اور مٹی سے جڑے ہوئے یہیں پڑے ہیں، وہ بزدل، کمپرومائزڈ اور لفافےقرار پائے ہیں۔ یہ ناتواں نگوڑے نہ تو ڈالر کما رہے ہیں اور نہ بہادری کے تمغے لے رہے ہیں بلکہ یہ نگوڑے تو ایک طرف سے گالیاں، تنقید اور طعنے سن رہے ہیں اور دوسری طرف سے غیر ضروری اور بے حد دباؤ برداشت کررہے ہیں۔ معاشرے شاید ایسے ہی بے حس ہوا کرتے ہیں۔ دنیا کی فلاسفی بدلنے والے سقراط کے ساتھ بھی تو صرف چار ہی لوگ کھڑے ہوئےتھے، شہر تو سارا بہروپ کا شیدائی تھا۔ حقیقت کا شناسائی تو کوئی ایک آدھا ہی ہوتاہے۔

ملمع سازی کی چاندی خوب بکتی ہے اور حقیقت کے فولاد کا کوئی خریدار نہیں ہوتا۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک روپ اور بہروپ کی یہ آویزش جاری ہے۔ کانگریسی مسلمان کہتے تھے، ہم ہندوستان کی تقسیم اس لیے نہیں چاہتے کہ اس سے مسلمان تقسیم ہوجائیں گے اور لیگی مسلمان کہتے تھے کہ ہم ہندو کا غلبہ نہیں چاہتے۔ دونوں کے یہ نعرے دلفریب تھے مگر دونوں سچ سے کوسوں دور تھے۔ کانگریسی مسلمان اس لیے غلط تھے کہ اگر ہندوستان کے سارے مسلمان اکٹھے بھی رہتے تو اکثریت کی وجہ سے ہندوستان کی حکمرانی تو ہندو کے پاس ہی رہنی تھی اور لیگی مسلمان اس لیے غلط تھے کہ جن علاقوں میں پاکستان بنا وہاں تو پہلے ہی مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔ پنجاب، سندھ، بنگال سب میں پہلے سے ہی مسلمان حکمران تھے۔ مگر یہ دونوں نعرے بہت بکے اور آج تک بہت بکتے ہیں۔ مسلم لیگ پاکستان کی حاکم بنی تو کانگریسی مسلمان، قوم پرست اور صوبہ پرست سب غدار ٹھہرے۔ حقیقت کچھ اور تھی۔ حکمران نااہل نکلے اور مخالف بدنیت ۔ مسلم لیگ راتوں رات ری پبلکن بنی تو ’’غدار‘‘ ڈاکٹرخان صاحب اور ’’مشکوک‘‘ حسین شہید سہروردی الزامات سے بری قرار دے کر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بن گئے اور ماضی کے ’’ محبِ وطن‘‘ لیگی انہی غداروں کے ساتھ شریک سفر ہوکر حکمرانی کرنے لگے۔ کنونشن لیگ ملک کے استحکام اور خوشحالی کی پیامبر کا بہروپ بن گئی اور کونسل مسلم لیگ قائداعظم اور مادرملت کی وراثت کی دعویدار بن گئی۔ دونوں دعوے غلط تھے، کنونشن لیگ میں ایوب خان کے ساتھی اور انکے مفادی تھے، کونسل لیگ بہتر تھی مگر بعد میں سب اقتدار کے پجاری ثابت ہوئے۔

بہادر بھگوڑوں اور ناتواں نگوڑوں کی یہ داستان سات دہائیوں سے جاری ہے۔ ایوب خان نے اسکندر مرزا اور بیگم ناہید اسکندر مرزا کو ملک بدر کردیا۔ اسے بھگوڑا قرار دیا گیا۔ ناہید مرزا کے قیمتی ہار اور ا سکندر مرزا کی سازشوں کی کہانی اس قدر پھیلائی گئی کہ وہی قومی بیانیہ بن گیا۔ تاہم اسکندر مرزا کے بیٹے ہمایوں مرزا نےاپنی کتاب میں ثابت کیا کہ اسکندر مرزا تو ملک کیلئے بڑے مخلص تھے مگر ایوب خان نے ذاتی اقتدار کیلئے اسکندر مرزا کو فارغ کیا۔ حقیقتاً دونوں غلط تھے، اسکندر مرزا بھی دوامی اقتدار کا خواہشمند تھا اور ایوب خان بھی اس وقت تک کرسی پر بیٹھا رہا جب تک یحییٰ خان نے اسکے گھر جاکر خود اسکی چھٹی نہ کروا دی۔ ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو کی کشمکش میں سب سے زیادہ نقصان سچ، حقیقت اور انصاف کا ہوا۔ ضیاء الحق، بھٹو کو آمر قرار دیتے تھے اور خود تاریخ کے سب سے بڑے آمر بنے۔ بھٹو خود ضیاء الحق کو لانے کی غلطی کے مرتکب ہوئے۔ مصطفیٰ جتوئی کی نیشنل پارٹی، حنیف رامے کی مساوات پارٹی اور حفیظ پیرزادہ و ممتازبھٹو کے نیشنل فرنٹ اصل میں بھٹو سے غداری اور ضیاء سے وفاداری کے سلسلے تھے مگر ان سب کے نعرے بھٹو کو بچانے کے تھے۔ یہ تماشے بہت ہوئے اب بھی ہورہے ہیں، جونیجو لیگ، فدا لیگ، ضیاء لیگ، ق لیگ اور رنگ رنگ کی لیگیں، یہ سب مختلف وقتوں کے حکمرانوں کی بی ٹیمیں تھیں جو جمہوری بہروپ میں جمہوری حق مارنے کیلئے وجود میں آئیں۔ پیٹریاٹ کیا تھا، دعوے بے نظیر بھٹو کو واپس لانے کے تھے مگر درحقیقت بے نظیر کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش تھی۔ مائنس ون فارمولے بھٹو،بے نظیر، نوازشریف پر آزمائے گئے اب عمران خان پر آزمائے جائینگے پھر بہروپ بھرے جائینگے، بھگوڑے بہادر اور مٹی سے جڑے لوگ ناتواں نگوڑے کہلوائیں گے۔

پوری کہانی میں سچ کو ہمیشہ مار پڑی ہے۔ جھوٹ کا بول بالا ہوتا رہا ہے۔ اب بھی وہی چلن ہے۔ متکبر جیت رہے ہیں اور منکسر ہار رہے ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ آج تو جھوٹ کو پہیے لگے ہوئے ہیں۔ جھوٹ دوڑ رہا ہے اور سچ بے چارا معذور بنا بیٹھا ہے۔ وہ اس لیے کہ سچ کڑوا اور جھوٹ میٹھا ہوتا ہے۔ کڑوا سچ سن لیا جائے تو اس کی تاثیر میٹھی ہوتی ہے۔ جھوٹ میٹھا اور مزیدار تو ضرور ہوتا ہے مگر اس کی تاثیر زہرآلود ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے بہادر بھگوڑے کامیابی سے جھوٹ سچ بول رہے ہیں اور نگوڑے، ناتواں کی آواز سنی نہیں جارہی۔ بہادر بھگوڑوں کو زندگی میں پہلی آزمائش پڑی تو فراری بن کر ریاست ہی کیخلاف بولنے لگے۔ حالانکہ یہ سنپولے پلے بھی ریاستی دودھ پر تھے۔ انہیں ہر جگہ خفیہ ہاتھ نوکریاں دلواتے تھے۔ یہی انہیں خبریں دیتے تھے۔ یہی انکے ذریعے لوگوں کو بدنام کرواتے تھے۔ اگر آج یہ مقتدرہ یا ریاست کیخلاف بیانیہ بناتے ہیں تو ریاست نے انہیں جو مراعات دیں، جو کیش دیئے وہ واپس کریں اور سرعام معافی طلب کریں وگرنہ وہ تاریخ کے بہروپیے تصور ہونگے جو انہی کی طرح ماضی میں سوانگ رچاکر گلی محلوں میں خیرات مانگا کرتے تھے۔ کدھر گئیں انقلاب کی منصوبہ بندیاں، ٹرمپ سے دوستی کی داستانیں، نونی اور پپلیوں کی اندرونی لڑائیاں اور نوٹیفکیشن میں تاخیر کے بارے میں سازشی کہانیاں۔ سب غلط ،پھر بھی ان پر یقین سے کیا ثابت ہوتا ہے کہ بھگوڑوں کا جھوٹ، نگوڑوں کے سچ پر بھاری ہے۔ مگر رکیے تاریخ کا پہیہ فیصلہ کرتے وقت الٹا گھومتا ہے، ولن ہیرو اور ہیرو ولن بن جاتے ہیں۔ حقیقت کھل جاتی ہے۔ بہروپ کا پردہ چاک ہوکر رہتا ہے، اب بھی ہوکر رہے گا۔ بہادر بھگوڑے باہر محفوظ ٹھکانوں پر بیٹھ کر روزانہ ناتواں نگوڑوں پر تیر برساتے ہیں۔ ناتواں نگوڑے ان تیروں کے زخم بھی سہ رہے ہیں اوریہ بے چارے زمینی مرغانِ بے پر پہ صیاد بھی قہرڈھاتے ہیں۔ یہی زمانے کی رِیت ہے بلکہ اصل سچ کی پہچان یہ ہے کہ اسے ہر بڑا، برا سمجھے اور ہر چھوٹا، اپنا سمجھے۔ جسے حال میں گالی پڑے اور تاریخ میں اسکے گلے میں ہار پڑے۔ صوفی اور ملامتی شاعر ایسے ہی تو نہیں کہتے کہ ہماری ہار ہی ہماری جیت ہے اور معاشرتی تنقید کی جیت، مستقبل کی تاریخی شطرنج میں اُنہیں مات ہوتی ہے اور یہی مات ہمیشہ کی تاریخ میں ثبت ہوتی ہے۔ سقراط کے کسی مخالف کا تاریخ نے نام بھی یاد نہیں رکھا۔ سقراط کے خیالات اور اسکا نام آج بھی زندہ ہے۔ آج کی مشکلات، مصیبتیں اور مخالفتیں، تاریخ میں ٹرافیاں بن جاتی ہیں اور گالی باز تاریخ میںخود گالی بن جاتے ہیں۔ آج بہادر بھگوڑوں کی اُڑان اور ناتواں نگوڑوں کی گران سہی مگر تاریخ کا پہیہ گھوم کر رہناہے۔

تازہ ترین