• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہی اس کی اہمیت و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے، شہید بے نظیر بھٹو کے جانے کے بعد ملک و قوم کو اُس طرز یا لیول کا لیڈر ملا ہی نہیں اور شاید ہمیں اس چیز کی بھی پہچان اور قدر نہیں کہ مفاہمت کےکنگ، صدر آصف علی زرداری اس طرح سب پہ بھاری ہیں کہ وہ عصرِ حاضر کی سیاست کے بہت تجربہ کار، اوروضعدار لیڈر ہیں، جو جمہوریت کے استحکام اور ملک و قوم کی ترقی کی خاطر سب کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں حالانکہ ان سے زیادہ مشکل حالات و معاملات اور مصائب و سانحات پاکستان کی سیاست میں کسی اور نے نہیں دیکھے، عہدِ موجود کی سیاست کا یہ سردار ستم رسیدہ ہے اور نمدیدہ بھی۔

یہ کیسے ’’محب وطن‘‘ پاکستانی ہیں جو پاک فوج کے ہیڈ کوارٹر (GHQ) پر حملہ کر کے بھی’’مقبول‘‘ ٹھہرتے ہیں۔ یہ ووٹ کو عزت دو کی آڑ میں سب حدیں توڑ دیتے ہیں اور کبھی 9 مئی کے وار میں کور کمانڈر ہاؤس کے گیٹ پھلانگ جاتے ہیں اور شہداء کی شمعیں توڑ دیتے ہیں۔ میرے پاکستان میں سب سے طویل ترین جیل کاٹنے والا ایک سیاسی لیڈر ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور میری رائے میں وہ شخص سب سے بڑا پاکستانی ہے، اسی مردِ حُر کو یہ کریڈٹ جاتا ہے جس نے کبھی سندھ کارڈ نہیں کھیلا اور ہمیشہ یہی کہا کہ’’ پاکستان کھپے‘‘جی ہاں وہ واحد سردار آصف علی زرداری ہے جس نے ہمیشہ اپنے وطن سے، وفاق سے وفاداری کی اور پاک فوج سمیت سب اداروں سے محبت اور رواداری نبھائی۔ میں صدر زرداری سے بصورت اشعار کہتا ہوں کہ

اب تو ہی قائد پی پی کا

اور تو ہی وارث بی بی کا

کوئی دکھا دو رنگ نیارے

ہم سب ہیں سنگ تمہارے

عدل اور علم عام کر دو

دیس عوام کے نام کر دو

سینئر صحافی و کالم نگار ،اینکر پرسن اور تجزیہ کارسہیل وڑائچ نے ایک سیمینار میں بڑے ہی دبنگ انداز میں یہ صد فیصد درست سوال اُٹھایا تھا کہ ’’وہ جج جنہوں نے پاکستان کے منتخب PM کی جان لے لی، ان کی تصاویر سپریم کورٹ میں کیوں لگی ہیں، وہ تصاویر ہٹائی جائیں، ان کے ناموں پر سیاہی پھیری جائے، انہیں علامتی سزا دی جائے، جب تک یہ نہیں ہوگا پاکستان کی سمت ہی درست

نہیں ہو سکتی۔ باتیں کرنا بڑا آسان ہے جبکہ جان دینا مشکل کام ہے، براہ کرم پی پی اور دیگر پارٹیوں میں یہ فرق ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے کہ کس نے خون دیا ہے اور کون صرف باتیں کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ 45 سال بعد یہ فیصلہ ہوا کہ پھانسی غلط تھی، وہ فیصلہ ہی غلط تھا بلکہ ایک عدالتی قتل تھا لیکن فیصلہ کرنے والے کیا کسی کے ٹاؤٹ تھے۔؟ اصل مجرم کا کیا بنا، وہ جنرل ضیاء الحق جو پیچھے تھا، جس نے پھانسی دلوائی، اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہوا؟‘‘ صاحبان سیاست کے خیالات و بیانات نے اور حالات نے پوری قوم پر یہ واضح کر دیا ہے کہ نہ صرف ’’نونی‘‘ بلکہ ’’انصافی‘‘بھی عوامی نہیں بلکہ خلائی اور آسمانی راستے سے ہی کُرسی نشین ہوتے رہے جبکہ پیپلز پارٹی ہمیشہ بغیر کسی بیساکھی کے یعنی بذریعہ ووٹ ہی حکومت میں آتی رہی۔ آج پنجاب میں پیپلز پارٹی کی کہانی، بے نظیر کابیانیہ اور بھٹو کی فکر و فلسفہ و نشانی بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے اور ذمہ دار اس کی پی پی کی موجودہ مرکزی و مقامی قیادت ہے۔ نچلی سطح پہ عوام آج بھی قائد عوام اور شہیدِ جمہوریت و دُخترِ مشرق کو ہی اصل جمہوری لیڈر جانتے مانتے ہیں لیکن لوگ سوچتے ہیں کہ پارٹی قائدین اپنے تکبر کے دائروں کو توڑ کر اورا سٹیٹس کُو سے نکل کر کب ہمیں پہچانتے ہیں۔جمہوریت کی جنگ لڑنے والے غریب عوام پہ مرنے والے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اب ہم کہاں ڈھونڈیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ گھر ہی بیٹھے رہیں یا پھر سمجھوتوں کی بانسری بجائیں اور سُکھ کے سانس پائیں۔

ستمگر ستمبر گزرا اور اکتوبر بھی مگر اس بار تو مجھے نومبر میں ہی 27 دسمبر اور شہید رانی کی یاد آنے لگی تھی اور رُلانے لگی تھی۔ اب تو بس بے نظیر یادیں ہی رہ گئی ہیں۔ 27 دسمبر کے ان سرد موسموں میں نہ جانے کیوں ہر سال ان تاریخوں میں بے نظیر پارٹی میں شامل ہونے کا سوچتا ہوں، اکیلے ہی بولتا ہوں اور پر تولتا ہوں کہ PP میں شامل ہو کر کام کروں پھر یہ سوچ کر رک جاتا ہوں کہ پہلے سے موجودپِپلیوں کو تو کوئی پوچھتا نہیں ہمیں کون پوچھے پہچانے گا۔

انشاءاللّٰہ ان موضوعات پر مزید بھی بات ہوگی اور ضرور ہوگی، میں آدھا اور ادھورا نہیں بلکہ پورا سچ لکھوں گا لیکن کالم میں نہیں عنقریب آنے والی اپنی بارہویں کتاب میں، جس کا نام ہے ’’بھٹو سے بے نظیر تک‘‘۔

تازہ ترین