بنگلہ دیش کا انقلابی طالب علم لیڈر شریف عثمان ہادی دنیا سے چلا گیا! دہشت گرد اس کی ٹارگٹ کلنگ کر کے ہندوستان فرار ہو گئے۔وہ آزادی کے لیے لڑتا، جمہوریت کا علمبردار ، میرٹ کا داعی تھا۔ سابق وزیر اعظم حسینہ واجد کے عوام پر ظلم و ستم، جبر و استبداد، چیرہ دستیوں سے بھرپور 15 سالہ دورِ حکومت پر بالآخر خاتمے کی مہر ثبت کرنے والا ہادی مستقبل کا متوقع وزیراعظم تھا۔ انتخابات کے اعلان کے بعد وہ مسجد سے نماز کے بعد رکشے میں نکلا تو نقاب پوش موٹر سائیکل سواروں نے اس پر فائر کھول دیا۔ ایک گولی کنپٹی سے پار ہوئی اور دوسری سینے پر جا لگی۔ بچانے کی بہت کوششیں ہوئیں، سنگاپور لے جایا گیا لیکن تقدیر میں شہیدِ انقلاب کہلوانا طے تھا۔ 5 اگست 2024 کے انقلاب کے بعد اپنے متعدد انٹرویوز میں کہا کہ "را" اور ہندوستان کی جانب سے اسے بارہا جان سے مارنے کی دھمکیاں ملی ہیں لیکن وہ ڈرا نہیں، پیچھے ہٹا نہیں! شہادت کی اطلاع پاتے ہی اس کے چاہنے والے باہر نکل آئے۔ہندوستان کے خلاف نعرہ بازی، بنگلہ دیشی سپریم کورٹ سے 1400 نوجوانوں کے بہییمانہ قتل پر سزائے موت پانے والی حسینہ واجد کی حوالگی اور ہادی کے خونِ ناحق کا بدلہ لینے کے نعرے لگنے لگے۔ دو سیکولر، ہندوستان ہمدرد اخبارات کے دفاتر کو نظر ِآتش کر دیا گیا۔ حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب کے دھان منڈی والے آبائی گھر کو آگ لگا دی اور دیگر ہندوستانی شناخت والی عمارتیں بھی مشتعل افراد کی زد میں آئیں۔ مسلسل پتھراؤ کی وجہ سے ہندوستانی اہلکار قونصلیٹ میں محصور ہو گئے جبکہ ہندوستان سے جنگ کرنے کے مطالبے بھی کیے جا رہے ہیں۔ ہادی اپنی تنظیم "انقلاب منچہ" میں ہندوستان مخالف جذبات، بنگلہ دیشی پالیسی پر ہندوستان کا ناجائز اثر رسوخ، "را" کی بنگلہ دیش کے سرکاری اداروں میں رسائی پر کڑی تنقید کیا کرتے۔ اپنی انقلابی تقاریر میں وہ ہندوستانی چالوں اور سازشوں کو بے نقاب کرتے اور ہندوستان کوآڑے ہاتھوں لیتے تھے۔
آج ہندوستانی میڈیا عثمان ہادی کے لیے توہین آمیز جملے استعمال کر رہا ہے۔ اس کی موت سے لا تعلقی اور حیرانی ظاہر کر رہا ہے کہ کیسے بنگلہ دیش کے ایک طالب علم لیڈر کی دہشت گردانہ حملے میں موت کو ہندوستان سے جوڑا جا رہا ہے۔ مظلومیت کی تصویر بنے اینکر کہتے ہیں کہ ہم نے اگر حسینہ واجد کو پناہ دی تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟جبکہ انہیں عثمان ہادی سے شکایت ہے کہ وہ ہندوستان کی سات بہن ریاستوں کو سلی گوری یعنی چکن نیک کے ذریعے ہندوستان سے کاٹنے کے خواہش مند تھے یا وہ کہا کرتے کہ 1947 کی آزادی نے ہی بالآخر بنگلہ دیش کی آزادی کی راہ ہموار کی جو دو قومی نظریے کا کھلا اعتراف تھا۔بنگلہ دیش کے داخلہ کے مشیر جہانگیر عالم نے الزام لگایا کہ حالات کے بگاڑ میں سیاسی مخالفت کے علاوہ بیرونی مداخلت کا ہاتھ بھی نظر آرہا ہے جبکہ ہندوستانی خارجی امور کی وزارت نے کسی قسم کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا ۔درحقیقت ہندوستانی وزیراعظم "گجرات کے قصائی" اور وزیراعظم بننے سے پہلے بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب قرار دیے جا چکے تھے۔امریکہ میں انکا داخلہ وزیر اعظم بننے تک بند رہا جبکہ ان کی جماعت بی جے پی کے نظریات اپنے مخالف نظریات رکھنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور دہشت گردی کرانے پر مبنی ہیں۔اسی لیے اجیت دوول، راجناتھ سنگھ اور دیگر بی جے پی کے عہدیدار مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف کھلی دہشت گردی میں ملوث ہیں۔کینیڈا میں سکھ قائدین کے قتل کرنے کی سازش سے لے کر، ایران میں اپنے کارندوں کے ذریعے مخبری سے بیشتر ایرانی قیادت کو مروانے ، قطر میں اپنے جاسوسوں کے ذریعے حماس قیادت پر اسرائیلی حملے کی راہ ہموار کرنے والا بھی ہندوستان ہے۔ وہ بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی کھلی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔افغانستان میں دہشت گردوں کی تربیت اور مالی معاونت سے پاکستان کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔ دہشت گردی کے شکار پاکستان اور بنگلہ دیش کو اقوامِ متحدہ سے ہندوستان کو دہشت گرد ملک قرار دلوانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ویسے بھی اس کی پہلگام سمیت متعدد فالس فلیگ وارداتوں میں اپنے شہریوں کو بے گناہ مروا کر پاکستان پر الزام لگانے کی بھی پکڑ ہونی چاہیے۔ علاوہ ازیں عثمان ہادی کی تو پہلی ٹارگٹ کلنگ ہے لیکن اگر ہندوستان کا ناطقہ بند نہ کیا گیا تو تمام بنگلہ دیشی انقلابی لیڈر ایک ایک کر کے شکار کیے جائیں گے تاکہ شیخ حسینہ کی کالعدم عوامی لیگ کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔
1971 میں پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگلہ دیشیوں کو جلدی احساس ہو گیا کہ شیخ مجیب نے انہیں پاکستان سے آزادی نہیں دلوائی بلکہ بنگلہ دیش کو ہندوستان کی جھولی میں پھینک دیا ہے۔ 25 سالہ معاہدے کے تحت بنگلہ دیش پابند تھا کہ اگر وہ کوئی چیز درآمد کرے گا تو ہندوستان سے اور اگر برآمد کرے گا تو صرف ہندوستان کو اور وہ بھی ہندوستان کی من مرضی قیمت پر۔ فوج کی تعداد کا تعین، بیوروکریسی میں تبادلے، ملک کے اہم شعبوں اور معاملات میں بھی "را "کا پورا پورا عمل دخل تھا۔اسی لیے محض بنگلہ دیش بننے کے تین سال آٹھ ماہ بعد شیخ مجیب کو اس کے تمام اہلِ خانہ سمیت ماسوائے دو بیٹیوں کے جو بیرون ملک تھیں منٹوں میں بنگلہ دیشی فوج نے بغاوت کر کے ہلاک کر دیا۔ شیخ مجیب نے بنگلہ دیشی قوم کو دھوکہ دیا، انہیں ہندوستان کی طفیلی ریاست بنا کر رکھ دیا۔ کرپشن، اقربا پروری، یک جماعتی نظام، سیکولر خیالات کا پرچار، کمزور معیشت، عوامی لیگ کے کارکنوں سے امتیازی برتاؤ، میرٹ کی نفی وغیرہ بنیادی وجوہات تھیں جن کے باعث شیخ مجیب کو قتل کیا گیا۔ 53 سال بعد بنگلہ دیش کی نوجوان نسل ماضی کی غلطیوں کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں، وہ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ دو قومی نظریے سے جڑے نوجوانوں کو ادراک ہے کہ وہ ہندوستان کے طفیلی بن کر کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ ان کے خواب بہتر روزگار، بہتر طرزِ زندگی سے بڑھ کر قومی خود مختاری اور حقیقی آزادی کے ہیں۔ پاکستان سے لمبے عرصے تک کشیدہ تعلقات کا دور اب ختم ہو چکا، آپس کی غلط فہمیاں، نفرتیں، کدورتیں دور ہو گئیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش بھائی چارے کے بندھن میں بندھے ایک دوسرے کے بازو بن چکے ہیں۔ ہندوستان نے پاکستان کو سازش سے دو لخت کر دیا تھا لیکن اب ہم ایک جان دو قالب بن کر اپنے ازلی دشمن ہندوستان کے مزموم مقاصد کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوں گے۔ اندرا گاندھی غلط ثابت ہوئی! قائد اعظمؒ صحیح تھے! دو قومی نظریہ زندہ ہے، زندہ رہے گا! انشاءاللّٰہؤ۔
؎کب تک رہے محکومی ٔ انجم میں مری خاک
یا میں نہیں ، یا گردشِ افلاک نہیں ہے
بجلی ہوں، نظر کوہ و بیاباں پہ ہے مری
میرے لئے شایاں خسو خاشاک نہیں ہے