• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین پاکستان اجتماعی سوچ کا اظہار ہے۔ اسی لئے اسکے آغاز میں ہی واضح طور پر درج کردیا گیا ہےکہ یہاں حاکمیت خدا تعالیٰ کی ہوگی اور حکومت انسانوں کی اکثریت کی نمائندہ ہوگی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ صدیوں سے انسانوں نے جو تجربات حاصل کئے ہیں اور بالخصوص مسلمانوں نے اسلام اور جمہوریت کی نظریاتی کشمکش میں جو نشیب و فراز دیکھے ہیں ان سے کچھ سیکھنے کے بجائے اور آئین کے اصولوں پر عمل کی بجائے حکومت نے حاکمیت شروع کردی ہےاور حاکمیت ِاعلیٰ کےالٰہی تصور کو انسانی عمل بنالیا ہے۔ تصورات کی اِسی الٹ پلٹ نے گڑبڑ مچا رکھی ہے ۔ آئین کی واضح شقوں کے بجائے اب بھی جان بوجھ کر ابہام پیدا کیا جاتا ہے تاکہ تصورات کو گڈ مڈ کرکےاختیارات کو زیادہ سے زیادہ بڑھا لیا جائے جبکہ آئین میں حقوق کی واضح شقوں کے باوجود شکوک پیدا کرکے انہیں کم سے کم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

پائیدار خوشحالی اور امن کیلئے حکومتوں کو جبر سے نہیں صبر سے کام لینا پڑتا ہے، جس حکومت میں صبر نہ ہو اور وہ جبر سے کام لے وہ تادیر نہیں چلتی۔ صدر ٹرمپ بہت سے معاملوں میں انتہا پسند ہیں مگر نیویارک کا میئر ظہران ممدانی جب ان کی تمام تر مخالفت کے باوجود جیت گیا تو انہیں صبر کا حربہ آزمانا پڑا اور اپنے شدید ترین مخالف ممدانی کو وائٹ ہاؤس بلاکر صدر ٹرمپ نے ثابت کیا کہ حکمرانی اپوزیشن کو برداشت کرنے کا نام ہے، دونوں نے سیاسی مخالفت اور ذاتی دشمنی بھول کر ملاقات کی اور راستہ نکالنے کی کوشش کی۔ مہذب اور جمہوری معاشروں کا چلن یہی ہوتا ہے۔

منتخب سویلین حکومتوں اور مارشل لاؤں میں ہمیشہ سے یہ فرق رہا ہے کہ مارشل لا میں حاکمیت اور جبر ہوتا ہے جب کہ منتخب حکومت کی گورننس میں صبر ہوتا ہے ،عام طور پر مارشل لا گرم ہوتے ہیں اور جمہوری سرکار نرم ہوتی ہے نرم کمزور لگتے ہیں مگر تا عمر چلتے ہیں گرم مضبوط لگتے ہیں مگر بہت کم چلتے ہیں ۔ نرم تاعمر اور تادیر سرسبز رہتےہیں جبکہ گرم جلد مرجھا جاتے ہیں ۔مارشل لاؤں کے سارے حاکم اپنے عہد کے خاتمے کے ساتھ ہی سیاسی موت کا شکار ہوگئے سیاستدان برے یا اچھے، سمندروں کے غوطوں کے باوجود پھر سے سانس بحال کرلیتے ہیں حکومت چھن بھی جائے تو سیاستدان زندہ رہنے کا ہنر جان لیتے ہیں ۔ نرم میں لچک ہوتی ہے گرم میں آگ ہوتی ہے جو خود اسے اور اسکے ساتھیوں کو جلادیتی ہے۔

سخت حکومتیں اڑیل اور ضدی ہوتی ہیں دباؤ میں آئیں تو ٹوٹ جاتی ہیں، نازک حکومتوں میں لچک اور مصلحت ہوتی ہے دباؤ آئے تو وہ جھک جاتی ہیں، مصالحت کرلیتی ہیں۔ سخت حکومتیں اکڑ کر چلتی ہیں مگر دباؤ میں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں ۔ نازک حکومتیں وقتی طور پر دب جاتی ہیں مُڑ جاتی ہیں مگر چلتی رہتی ہیں کہ چلتے رہنے کا نام ہی زندگی ہے۔ سخت دھاتیں کاٹنی پڑتی ہیں نرم دھاتیں آسانی سے ڈھل جاتی ہیں۔ ماضی کے یہ تجربات ہر حاکم یا حکومت کے مدنظر ہوں تو لازمی طور پر حالات میں بہتری پیدا ہوجائے ۔

تصورات کا الجھاؤ بہت سے عملی مسائل پیدا کرتاہے مثلاً پاکستان کی بیورو کریسی کو کبھی افسر شاہی اور کبھی نوکر شاہی کہا جاتا ہے اگر آپ اس اصطلاح کی جڑ میں جائیں تو گورنمنٹ سرونٹ، سول سرونٹ کا تصور ملے گا جس کا واضح مطلب حکومتی خادم یا عوامی خادم کا ہے مگر بدقسمتی سے خدام نے شاہی رنگ اختیار کررکھا ہے اور ان میں سے بیشتر کو اپنے اصل رول کا علم تک نہیں، کاش انہیں کوئی بتائے کہ آپ شاہ نہیں خدام ہیں، آپ حاکم نہیں خادمِ عوام ہیں ۔ آپ کے دروازے بندنہیں کھلے ہونے چاہئیں آپ آدھے ہاتھ کے مصافحے سے باہر نکلیں اور کھلے دل سے لوگوں سے ملیں۔ ملاقاتیوں میں خود کو بڑا ثابت کرکے بڑی باتیں یا سرد لہجوں میں گفتگو آپ کو چھوٹا کردیتی ہے ۔یہ دنیا افسر شاہی کی نہیں، شاہیاں دم توڑ چکی ہیں اب خادمیت اور آدمیت کا دور ہے آپ بھی افسر شاہی سے آدمی بن جائیں۔

ایک اور غلط اور الٹا تصور یہ ہے کہ اس قوم کو صرف ڈنڈے سے چلایا جاسکتا ہے۔ حکمران ڈنڈے مزاج کا ہو توفوری طور پر امن وسکون ہوجاتا ہے مگر پھر ظالمانہ ڈنڈے کے مقابلے میں تاریخ نے کئی بار یہ منظر دیکھا ہے ، عاقلانہ ٹھنڈے جیت جاتے ہیں پارہ صفت لیڈر جلتے اور بجھتے ہیں ۔روشن دماغ ہمیشہ دھیمے دھیمے نور پھیلاتے ہیں۔ مدلل ابراہم لنکن نے متشدد لیڈروں کو دلیل کی طاقت سے شکست دی۔ تلوار دلیل کو گھائل کرسکتی ہے مگر دلیل زخمی ہوکر بھی دوبارہ اٹھنے کی قوت رکھتی ہے تلوار ٹوٹ جائے تو جڑ نہیں سکتی تلوار کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ دلیل کے کئی بچے ہوتے ہیں۔ خشک لکڑی فوراً بھڑکتی ہے اور فوراًجل جاتی ہے، لکڑی کی جڑ منڈھی آہستہ آہستہ اور تادیر جلتی رہتی ہے۔

تضادستان میں تصورات کو الٹانے اور غلط معانی پہنانے کا رواج حد سے بڑھ چکا ہے ان جھوٹے اور غلط تصورات سے حاکمیت، ڈنڈا، جبر ،افسر شاہی، بادشاہی اور اڑیل پن کو اچھا اور مثبت ثابت کیا جاتا ہے حالانکہ یہ سب منفی رویے ہیں جنکا نتیجہ قوموں کے زوال کو جنم دیتا ہے۔ خادمیت صبر اور لچک وہ رویے ہیں جن سے قومیں عروج پاتی ہیں ریاست کو سخت بنانے سے عوام کی اپنے ملک سے محبت کمزور پڑتی ہے اور ریاست کا عوام کیلئے نرم رویہ اختیار کرنے سے ملک مضبوط بنتے ہیں۔

سب سے غلط رویہ اور تصور یہ ہے کہ سچ کو چھپانے اور دبانے سے قیاس آرائیاں ختم ہوجاتی ہیں حالانکہ سچ کو دبانے سے جھوٹ، افواہیں اور گمراہ کن لطائف جنم لیتے ہیں۔ جب سے نسل ِ انسانی وجود میں آئی ہے اسے مزیدار کہانیاں سننے کی عادت ہے، اطلاع یا خبر حاصل کرنا انسان کی جبلت میں ہے۔ اگر سچ بند ہوجائیگا تو انسان جھوٹ سن لے گا جب ایسی صورتحال پیدا ہوجائے تو جھوٹ اور سچ میں جو تھوڑا سا فرق ہوتا ہے وہ بھی مٹ جاتا ہے پھر انسان سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ سمجھنے لگتا ہے ۔ ہر وہ ریاست جو سچ کو روکتی ہے دراصل اپنی جڑیں کھوکھلی کرتی ہے اور جھوٹ کا راستہ کھول دیتی ہے۔ اگر سچ کو آزادی ہو اور جھوٹ بھی آزاد ہو، دونوں کا مقابلہ ہو تو قرآن پاک کے فرمان کے مطابق بالآخر حق، باطل پر غالب آکر رہتا ہے۔ حق کو بازو سے پکڑ کر اسکی آنکھیں بند کرکے اگر باطل کےسامنے ڈالا جائے گا تو لازماً باطل ہی جیتے گا۔ باطل کو شکست تبھی ہوسکتی ہے جب حق کے ہاتھ بھی کھلے ہوں اور اسکی آنکھوں پر پٹی نہ باندھی جائے ۔ فی الحال تو باطل آزاد ہے اور حق کے ہاتھ بندھے ہیں۔ اگر یہی غلط تصور رہا تو لازماً حق ہار جائے گا۔

تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جبر یا حاکمیت سے ریاست تو چلتی رہتی ہے مگر پائیدار ترقی و خوشحالی، عوام اور ریاست کے درمیان معاہدے یعنی آئین پر عمل اور اسکی عملداری ہی سے ممکن ہے۔ جنرل مشرف مارشل لا کے باوجود کالا باغ ڈیم نہ بناسکے، چھ نہریں نہ نکل سکیں تو مفاہمت کے بغیر نئے صوبے کیسے بن جائیں گے؟ جتنی محنت اور بیرونی دورے غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کیلئے ہوچکے ہیں تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی مگر ابھی تک کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی کیونکہ ماحول ہی سازگار نہیں۔ صنعت اور برآمدات کو فروغ دینے کیلئے کتنے درجن اجلاس ہوئے مگر صنعت کا پہیہ چل نہیں سکا۔ وجہ، کسی کو اعتبار ہی نہیں۔ حکم صادر ہو تو کمزور اور بزدل چل تو پڑتے ہیں مگر منزل طے ہی نہ ہو تو یہ کس منزل کو پہنچیں گے؟

تازہ ترین