• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت نے اپنے خلاف اٹھنے والی ایک اور طاقتور آواز کو خاموش کرا دیا۔ بنگلہ دیش کی جابر و ظالم آمر حکمران شیخ حسینہ واجد کیخلاف طلبہ تحریک کی مرکزی جماعت انقلاب مانچا کے اہم ترین طالب علم رہنما شریف عثمان ہادی 12 دسمبر کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ڈھاکہ میں مسجد سے گھر جاتے ہوئے ایک قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے اور 18 دسمبر کی رات سنگا پور کے ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔حملہ آوروں کے بارے میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ وہ بھارت سے بنگلہ دیش میں داخل ہوئے اور دہشت گردی کی سنگین واردات

کے بعد سرحد پار کرکے واپس چلے گئے۔ اس واردات سے قبل خفیہ ایجنسیوں کے پاس ایسی اطلاعات موجود تھیں کہ بنگلہ دیش کی معزول و مفرور سابق وزیراعظم شیخ حسینہ بھارتی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش میں اپنے مخالفین کے قتل کامنصوبہ تیار کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے ان کے کچھ بیانات بھی بھارتی میڈیا کے ذریعے عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں طور پر شائع ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے عثمان ہادی کے قتل میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے کردار کی طرف واضح اشارہ کیا ہے اور اسے فروری میں ہونے والے عام انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے بھارتی حکومت سے فوری طور پر عثمان ہادی کے قاتلوں بلکہ موت کی سزاوار شیخ حسینہ کی حوالگی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔32 سالہ عثمان ہادی شہید گزشتہ سال شیخ حسینہ کیخلاف طلبہ تحریک کے دوران انقلاب مانچا کے مرکزی ترجمان کی حیثیت سے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کے طور پر ابھرے اور طلبہ تحریک کے مرکزی رہنما کے طور پر آسمان سیاست پر چھا گئے۔ وہ بنگلہ دیش کی موجودہ سیاست میں اہم مقام رکھتے تھے اور متوقع عام انتخابات میں ڈھاکہ کے حلقہ آٹھ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے رہے تھے۔ ان کا تعلق ساؤتھ بنگلہ دیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں نالچیتی کے ایک مسلمان گھرانے سے تھا، انکے والد مسجد کے پیش امام رہے، عثمان ہادی اسلامی رجحانات ، وسیع تر قومی سالمیت و خودمختاری کے علم بردار رہنما کے طور پر اپنی منفرد سیاسی شناخت رکھتے تھے، اور بھارت کی بنگلہ دیش میں مداخلت کیخلاف ایک طاقت ور آواز سمجھے جاتے تھے جنہیں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اہل کاروں نے اپنے بنگلہ دیشی سہولت کاروں کی مدد سے دن دہاڑے نشانہ بنا کر شہید کردیا۔ مودی سرکار جس کا خمیر گجرات کے مسلم کش فسادات سے اٹھا اور جو سمجھوتہ ایکسپریس میں پاکستانی شہریوں کو جلائے جانے جیسے سنگین واقعات ،کینیڈا میں سکھ رہنماؤں کے قتل میں براہ راست ملوث ہے اور جس پر ٹھوس شواہد کی بنیاد پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنے ڈیتھا سکواڈ کی مدد سے مخالفین کو قتل کرانے کی بارہا کوششیں کرچکی ہے ، پاکستان میں افغان طالبان کی مالی و مسلح معاونت سے کالعدم ٹی ٹی پی کے ذریعے فوجی تنصیبات ،سکیورٹی اہلکاروں ،علماءکرام اور اہم سیاسی و سماجی شخصیات کو قتل کرنے ،بلوچستان میں مسلح علیحدگی پسند گروپوں خصوصاً بی ایل اے کی پشت پناہی کر رہی ہیں اور جسکی وجہ سے افغانستان ایک مرتبہ پھر عالمی سیاست، علاقائی کشمکش اور دہشت گردی کے خطرناک موڑ پر کھڑا ہے مگر اس بار صورت حال محض ایک ملک تک محدود نہیں رہی اسکے اثرات پورے خطے بالخصوص پاکستان پر شدت کے ساتھ محسوس کئے جا رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی تازہ ترین رپورٹوں نے ان خدشات پر مہرِتصدیق ثبت کردی ہے جن کا اظہارپاکستان برسوں سے کرتا آ رہا ہے، یہ رپورٹیں واضح طور پر نشان دہی کررہی ہیں کہ افغان سرزمین دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ ترین پناہ گاہ بن چکی ہے وہاں سے سرحد پار کارروائیاں مسلسل جاری ہیں بلکہ اسکے اثرات عالمی سطح پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ دعویٰ کہ انہوں نے گیارہ ماہ میں آٹھ جنگیں رکوائی ہیں بظاہر ایک بڑا سیاسی نعرہ ضرور ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس تصویر پیش کرتے ہیں ۔اگر واقعی جنگیں رک چکی ہوتیں تو پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ کیوں دیکھنے میں آ رہا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ان واقعات کی منصوبہ بندی ،تربیت اور سہولت کاری کا سِرا براہ راست افغانستان سے ملتا ہے اور اسکے پیچھے بھارت نقاب پہنے کھڑا ہے۔یہاں سب سے بنیادی سوال امریکہ کے کردار پر اٹھتا ہے ۔ امریکہ خود تحریک طالبان پاکستان اور بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دے چکا ہے ۔ اسکے باوجود یہ تنظیمیں افغانستان میں کیسے موجود ہیں۔ اگر امریکہ واقعی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سنجیدہ ہے تو پھر افغان طالبان اور بھارت کے گٹھ جوڑ کا نوٹس کیوں نہیں لیا جا رہا، اربوں ڈالر مالیت کے امریکی ہتھیار، گاڑیاں،جنگی آلات آج مختلف دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں نظر آتے ہیں یہی اسلحہ پاکستان میں ہونیوالے حملوں میں بھی استعمال ہونے کے شواہد بارہا سامنے آ چکے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر امریکہ اس معاملے پر خاموش ہے یا محض رسمی بیانات تک محدود ہے۔ پاکستان مسلسل یہ موقف پیش کرتارہا ہے کہ بھارت افغانستان میں اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور مالی وسائل کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ ٹھوس شواہد کے باوجود بھارت کیخلاف کوئی غیرمعمولی کارروائی ہوتی نظر نہیں آ رہی اب یہ سلسلہ بنگلہ دیش تک پہنچ چکا ہے اور خدشہ ہے کہ بنگلہ دیش اب بھارتی دہشت گردی کا نیا ٹارگٹ ہوگا اور آنے والے دنوں میں وہاں دہشت گردی کے واقعات بڑھتے چلے جائیں گے۔ اس بارے میں پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھارتی دہشت گردی کیخلاف مشترکہ طور پر عالمی عدالتِ انصاف، اقوام متحدہ کے فورم پر بھرپور آواز اٹھانی چاہئے ورنہ یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے۔

تازہ ترین