پاکستان میں مہنگائی، غذائی عدم تحفظ اور زرعی زوال پر جب بھی سنجیدہ بحث ہوتی ہے تو دو اجناس بار بار مرکزِ نگاہ بنتی ہیں ،گندم اور چینی۔ یہ محض روزمرہ استعمال کی اشیاء نہیں بلکہ قومی معیشت، دیہی روزگار، خوراکی سلامتی اور سیاسی استحکام سے جڑی ہوئی اہم اجناس ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں میں ان دونوں شعبوں کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں میں نہ صرف تسلسل کا فقدان رہا بلکہ کئی فیصلے ایسے کیے گئے جنہوں نے منڈی کے توازن کو بگاڑ کر کسان اور صارف دونوں کو نقصان پہنچایا۔ ان سطور میں ہم ان دونوں اجناس کو تفصیل سے زیر بحث لائیں گے۔
گندم سپورٹ پرائس کا اعلان:چند برس پہلے تک صوبائی حکومتیں گندم کی منظم خریداری کرتی تھیں۔ یہ خریداری محض ایک انتظامی عمل نہیں تھیابلکہ غریب کسان کیلئے معاشی تحفظ کی ضمانت سمجھاجاتا تھا۔ مگر حالیہ برسوں میں صوبائی حکومتوں نے عملاً اس ذمہ داری سے ہاتھ کھینچ لیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ صرف پاسکو چند مخصوص علاقوں میں محدود مقدار میں گندم خریدتا ہے، جبکہ صوبائی فوڈ ڈیپارٹمنٹس تقریباً غیر فعال ہو چکے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ حکومت ایک طرف سپورٹ پرائس کا اعلان کرتی ہے اور دوسری طرف یہ کہہ کر خریداری سے انکار کر دیتی ہے کہ ’’قیمت کا تعین آزاد منڈی کے نظام پر چھوڑ دیا جائے‘‘۔ گزشتہ سال گندم کی سرکاری سپورٹ قیمت 3900 روپے فی من مقرر کی گئی، مگر چونکہ حکومت نے خریداری نہیں کی، اس لیے کسان اپنی فصل 2200روپے فی من تک فروخت کرنے پر مجبور ہو گیا۔ یہی گندم چند ماہ بعد5000 روپے فی من کے قریب فروخت ہو رہی ہے۔اس پورے عمل میں فائدہ کسان کو نہیں بلکہ آڑھتی اور درمیانی طبقے کو ہوا، جس نے کم قیمت پر گندم خرید کر ذخیرہ کی اور بعد ازاں مہنگے داموں مارکیٹ میں فروخت کر دی۔اور جب کسان کو اپنی فصل کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا تو وہ اگلے سیزن میں گندم کی کاشت کم کر دیتا ہے۔ اس سے قومی پیداوار گھٹتی ہے، ذخائر کم ہوتے ہیں اور بالآخر ملک کو مہنگی درآمدات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف قیمتی زرمبادلہ ضائع ہوتا ہے بلکہ مہنگائی میں بھی شدید اضافہ ہوتا ہے۔ یوں ایک شیطانی چکر (Vicious circle)جنم لیتا ہے جو پہلے کسان کو، پھر صارف کو، اور آخرکار پوری معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
قلت اور اضافے کے درمیان پھنسی چینی پالیسی:چینی کا مسئلہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ کبھی مارکیٹ میں قلت کا شور، کبھی قیمتوں میں اچانک اضافہ اور کبھی اضافی اسٹاک کا انبار۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ شوگر ملوں کے پاس لیکویڈیٹی کی کمی ہوتی ہے، بینکوں کا دباؤ الگ اور حکومت کے پاس قیمتوں کو مستحکم رکھنے کا کوئی مستقل، شفاف اور قابلِ عمل فریم ورک موجود نہیں۔ گندم کی طرح گنے کی فصل کی بھی ایک سپورٹ پرائس ہونی چاہیے اور حکومت اس سپورٹ پرائس کے حصول کیلئے شوگر ملوں پر سختی سے عمل درآمد کرائے ۔نتیجتاً ذخیرہ اندوزی، قیاس آرائی اور وقتی فیصلے پورے نظام کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ کبھی درآمدات کی اجازت، کبھی برآمدات پر پابندی ،یہ سب اقدامات وقتی ریلیف تو دے سکتے ہیں مگر مسئلے کی جڑ کو نہیں چھیڑتے۔
حل کیا ہے؟ :گندم اور چینی کے بحران کا حل نہ تو سخت سرکاری کنٹرول میں ہے اور نہ ہی منڈی کو مکمل طور پر بے لگام چھوڑ دینے میں۔ اصل ضرورت ایک قواعد پر مبنی، شفاف اور مالیاتی طور پر قابلِ عمل پالیسی فریم ورک کی ہے، جس میں ریاست کا کردار سہولت کار کا ہو، منڈی کو منظم رکھنے والا ہو، نہ کہ اسے تباہ کرنے والا۔
ایک مربوط پالیسی فریم ورک:سب سے پہلے، گندم کیلئے صوبائی حکومتوں کو بوائی سے پہلے سپورٹ پرائس کا اعلان کرنا چاہیے اور اس اعلان کیساتھ عملی خریداری کی ضمانت دینا ہوگی۔ صرف قیمت کا اعلان، بغیر خریداری کے، کسان سے مذاق کے مترادف ہے۔دوسرے مرحلے میں حکومت کو شیڈولڈ بینکوں سے نرم اور قلیل مدتی قرضہ جاتی سہولت حاصل کرنی چاہیے جس طرح ہمیشہ سے حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ اس وقت بینکوں کے پاس وافر لیکویڈیٹی موجود ہے، جسے درست حکومتی گارنٹی اور شفاف میکانزم کے تحت زرعی استحکام کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس رقم سے حکومت کو گندم کسان سے اور چینی شوگر ملوں سے اضافی اسٹاک کی خریداری کرنی چاہیے، تاکہ نہ کسان کو کم قیمت پر بیچنا پڑے اور نہ صارف کو بعد میں مہنگی خریداری کا سامنا ہو۔تیسرے مرحلے میں سب سے اہم اصلاح اسٹوریج کے شعبے میں درکار ہے۔ گندم کو کھلے میدانوں میں ترپال کے نیچے رکھنا قومی وسائل کا ضیاع ہے۔ اسکے بجائے جدید سائلوز کی تعمیر نجی شعبے کے ذریعے کی جائے، حکومت اسٹوریج کرایہ ادا کرے اور لاکھوں ٹن گندم کے ضیاع کو روکا جائے۔ چینی کے معاملے میں، سرکاری ملکیت کا اسٹاک وہیں شوگر ملوں میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔چوتھے مرحلے میں گندم اور چینی دونوں کی مارکیٹ میں فروخت ایک واضح فارمولے کے تحت کی جائےجیسےخریداری (سپورٹ) قیمت، بینک مارک اپ، اسٹوریج کرایہ، ہینڈلنگ و نگرانی کے اخراجات وغیرہ۔یہ طریقہ قیمتوں میں استحکام لائے گا اور ناجائز منافع خوری کا راستہ بند کرے گا۔اگر پیداوار ضرورت سے زیادہ ہو تو گندم اور چینی کو شفاف بین الاقوامی ٹینڈر کے ذریعے برآمد کیا جائے، تاکہ زرِمبادلہ حاصل ہو اور یہی نظام خود کفیل رہے۔سپورٹ پرائس کا اعلان کر کے خریداری سے انکار دراصل کسان کے اعتماد کو توڑنے کے مترادف ہے۔ اگر گندم اور چینی جیسے اسٹرٹیجک شعبوں کو ایک مربوط، شفاف اور منڈی سے ہم آہنگ فریم ورک کے تحت چلایا جائے تو نہ صرف کسان خوشحال ہو سکتا ہے بلکہ ملک غذائی خود کفالت، قیمتوں کے استحکام اور معاشی بحالی کی سمت میں سنجیدہ پیش رفت کر سکتا ہے۔