• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب ہمیشہ سے فراخ دلی، انسان دوستی، تخلیقی اظہار اور صوفیانہ روایتوں کا امین رہا ہے۔ یہ وہ دھرتی ہے جہاں فرقہ پرستی تو دور، مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان دشمنی کے آثار بھی کم ہی دکھائی دیتے تھے۔ صوفیا کے آستانوں پر ایک ہی دسترخوان سب کیلئے بچھتا تھا اور یہی رویہ سماج کے مختلف طبقات میں بھی جھلکتا تھا۔ دکھ سکھ کے مواقع پر مذہبی شناخت نہیں دیکھی جاتی تھی بلکہ انسان کو انسان سمجھ کر گلے لگایا جاتا تھا۔ اسی لیے پنجاب کی تہذیب محبت، رواداری اور باہمی احترام کی علامت سمجھی جاتی تھی۔یہ خطہ ادب، فنون اور ثقافت کا گہوارہ اس لیے بنا کہ یہاں وہ صوفی ہمارا ثقافتی ہیرو رہا ہے جس نے ظاہر پرستی، مذہبی ٹھیکیداری اور منافقت کے بجائے اسلام کی اصل روح کو اجاگر کیا۔ اس کی تعلیمات محض وعظ تک محدود نہیں بلکہ مساوات، رواداری، خدمتِ خلق، ایمانداری اور احترامِ آدمیت کو اس نے اپنے عمل سے زندہ کر کے دکھایا۔ صوفیا نے انسان کو انسان سے جوڑا، دلوں میں وسعت پیدا کی اور معاشرے کو توازن عطا کیا۔اس روشن خیال معاشرے میں انتہاپسندی کا بیج دانستہ منصوبہ بندی کے تحت بویا گیا۔ ضیاء الحق دور کی فکری وراثت نے اس بیج کو پانی دیا، جبکہ مختلف طبقاتِ فکر نے یا تو خاموشی اختیار کی یا مفاد کی خاطر اس سوچ کا ساتھ دیا۔ نتیجتاً نفرت آہستہ آہستہ سماج کی رگوں میں سرایت کرتی چلی گئی۔ ایک ہی مذہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے لگے،برداشت، مکالمہ اور تحمل جیسے اوصاف ہمارے اجتماعی رویّوں سے غائب ہوتے چلے گئے۔آج وہ نفرت کے بیوپاری چہرے اگرچہ منظر سے ہٹ چکے ہیں، مگر انکی بوئی ہوئی فصل کسی وقتی مہم یا رسمی بیانات سے تلف ہونے والی نہیں۔ اسی تلخ حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے حکومتِ پنجاب نے ادارۂ انسدادِ انتہاپسندی قائم کیا ہے۔ یہ اقدام محض ایک سرکاری خانہ پُری نہیں بلکہ اس عزم کا اظہار ہے کہ انتہاپسندی کا مقابلہ سطحی نعروں سے نہیں بلکہ فکری، ثقافتی اور سماجی بنیادوں پر کیا جائے گا، تاکہ شر کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔

اس ادارے کیلئے ڈاکٹر احمد خاور شہزاد اور ڈاکٹر احمد جاوید قاضی جیسے متحرک، صاحبِ دانش اور وژن رکھنے والے افراد کا انتخاب یقیناً خوش آئند ہے۔ لاہور میں منعقد ہونیوالی دو روزہ ورکشاپ میں مختلف صوبوں سے مندوبین کی شرکت نے واضح کیا کہ مسئلے کو محض صوبائی نہیں بلکہ قومی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ پشاور سے بیرسٹر سیف ، اسلام آباد سے مسرت قدیم اور لاہور سے شاہد محمود ندیم کی گفتگو نے بہت متاثر کیا، مختلف مقررین کی گفتگو نے فکری سمت متعین کی، تاہم سیکریٹری ہوم ڈاکٹر احمد جاوید قاضی کی بصیرت افروز تقریر نے یہ یقین پیدا کیا کہ یہ ادارہ کاغذی کارروائی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ معاشرے میں سرایت کیے زہر کیلئے مؤثر تریاق بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وزیرِ صحت خواجہ سلمان رفیق کی انتظامی سنجیدگی اور متوازن مزاج بھی اس ضمن میں امید افزا ہے۔تاہم یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ محض لیکچرز، سیمینارز اور اخلاقی نصیحتوں سے انتہاپسندی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ برسوں سے راسخ ذہنی عادتوں اور رویّوں کو بدلنا ایک طویل اور صبر آزما عمل ہے۔ ہمارا معاشرہ اس وقت منافقت اور دو عملی کا شکار ہے۔ ایک طویل عرصے تک ظاہری نیکی پر اتنا زور دیا گیا کہ اخلاق محض نمائشی عمل بن کر رہ گیا اور باطنی اصلاح پس منظر میں چلی گئی۔ایسے میں ہمیں صوفیا کے طریقِ کار کی طرف سنجیدگی سے لوٹنا ہوگا۔ صوفیا تبلیغ نہیں کرتے تھے، وہ اپنے کردار سے دلوں کو بدلتے تھے۔ وہ فنون کے ذریعے انسان کا کتھارسس کرتے، ثقافتی اقدار کے ذریعے اس کے اندر روحانی اور جمالیاتی حس بیدار کرتے تھے۔ انسان نہ مشین ہے نہ فرشتہ وہ احساس کا باشندہ ہے، اور اسی احساس کی درست تربیت سے ایک متوازن معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظاہر پرست عناصر سب سے پہلے ثقافت اور فنون پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس ادارے کو ایسے خودساختہ مذہبی ٹھیکیداروں کی مداخلت سے محفوظ رکھنا ناگزیر ہوگا۔ عملی سطح پر اس جدوجہد کو تعلیمی اور سماجی اصلاحات سے جوڑنا ہوگا۔ نصاب میں رواداری، برداشت، تنوع، انسانی حقوق اور مذہبی ہم آہنگی کو شامل کیا جائے، جبکہ تنقیدی سوچ کو فروغ دیا جائے تاکہ سوال اٹھانے والا ذہن شدت پسند بیانیے کا شکار نہ ہو۔ دینی مدارس کو مرکزی تعلیمی دھارے میں شامل کر کے جدید علوم سے جوڑا جائے، تاکہ یک رُخی فکر کمزور پڑے۔ صوفیانہ تعلیمات، ادبی سرگرمیاں، ثقافتی تقریبات اور میلے محبت، امن اور انسانیت کے پیغام کو عام کرنے میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

رب کرےادارۂ انسدادِ انتہاپسندی اپنے مقاصد میں کامیاب ہو، کیونکہ اسی میں اس ملک کی بقا، معاشرتی ہم آہنگی اور آنے والی نسلوں کا محفوظ مستقبل پوشیدہ ہے۔

تازہ ترین