ہندوستان جو صنم گری میں شہرت رکھتا ہے وہاں خدا کی ذات پر مکالمہ ایک بڑا واقعہ ہے،برصغیر کی فکری تاریخ میں خدا کے وجود پر مکالمہ کوئی نیا باب نہیں۔ اس خطے کی تہذیب نے ہمیشہ کائنات، انسان اور ماورائے عقل حقیقت کے باہمی تعلق پر غور کیا ہے۔ ویدانت کی گہرائیاں ہوں، بدھ مت کی فکری خاموشی، صوفیاء کی معرفت یا علم کلام کی استدلالی روایت،ہر دور میں سوال بھی اٹھا اور جواب بھی تلاش کیا گیا۔ فرق یہ تھا کہ ماضی کے سوال یقین کی جستجو تھے، جبکہ آج کے سوال اکثر انکار اور تشکیک کی دہلیز پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ حالیہ دنوں بھارت میں خدا کے وجود کے حوالے سے ہونے والا مکالمہ اسی بدلتے ہوئے فکری منظرنامے کی ایک جھلک ہے۔
نوآبادیاتی دور سے قبل برصغیر میں مذہب محض عبادت تک محدود نہ تھا بلکہ سماج، اخلاق اور تہذیب کی بنیاد سمجھا جاتا تھا۔ انگریز کے ساتھ اقتدار ہی نہیں آیا، ایک نیا فکری زاویہ بھی آیا جس میں مذہب کو ترقی کے مقابل لا کھڑا کر دیا گیا۔ عقل اور وحی کے مابین ایک مصنوعی تصادم پیدا ہوا، جس نے آہستہ آہستہ تشکیک کو فروغ دیا۔ یہ تشکیک محدود حلقوں تک تھی، مگر جدید دور میں ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل میڈیا نے اسے عام کر دیا ہے۔
اکیسویں صدی کا نوجوان ایک ایسے سیلاب میں گھرا ہوا ہے جہاں سوالات تو بے شمار ہیں مگر رہنمائی ناپید۔ یوٹیوب، سوشل میڈیا اور غیر سنجیدہ فکری مواد نے خدا کے تصور کو محض ایک مفروضہ بنا کر پیش کیا ہے۔ نتیجتاً نوجوان ذہن، جو فطری طور پر تجسس پسند ہے، بغیر تیاری کے الحادی بیانیے سے متاثر ہو رہا ہے۔ یہ محض مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ تہذیبی بحران ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ الحاد ہمیشہ طاقتور تہذیبوں کے زوال کے دور میں ابھرا۔ یونان کی مادیت، ہندوستان کا چارواک فلسفہ اور یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے بعد کلیسا کے ردعمل میں پیدا ہونے والی تحریکیں، یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ جب مذہبی روایات کمزور ہوئیں تو انکار نے جنم لیا۔ مگر تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ خدا کے انکار سے انسان کو سکون نہیں ملا، بلکہ بے مقصدیت نے جنم لیا۔
انسان فطری طور پر مقصد کا متلاشی ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کیوں ہے، کہاں سے آیا ہے اور کہاں جانا ہے۔
مذہب ان سوالات کو معنی دیتا ہے، جبکہ الحاد انہیں محض حیاتیاتی حادثہ قرار دے کر ختم کر دیتا ہے۔ مگر سوال ختم نہیں ہوتے، صرف دب جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید، مادی طور پر خوشحال معاشروں میں بھی ذہنی دباؤ، تنہائی اور خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
یہاں نوجوان نسل کے عقیدے کا تحفظ غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ نوجوان کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتا ہے۔ اگر یہی نسل فکری انتشار کا شکار ہو جائے تو قوم جسمانی طور پر تو زندہ رہتی ہے مگر اخلاقی طور پر کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ خدا کا تصور نوجوان کو صرف عبادت نہیں سکھاتا، بلکہ جواب دہی کا شعور دیتا ہے۔ یہ احساس کہ ایک دن حساب ہونا ہے، انسان کو ظلم، فریب اور خودغرضی سے روکتا ہے۔
برصغیر کی اسلامی روایت میں عقل اور ایمان کو کبھی متصادم نہیں سمجھا گیا۔ امام غزالیؒ، شاہ ولی اللّٰہؒ اور ہمارے عہد میں پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ جیسے اکابر نے واضح کیا کہ عقل اگر وحی کی رہنمائی میں ہو تو روشنی ہے، اور اگر خود کو کُل سمجھ بیٹھے تو بھٹک جاتی ہے۔ بدقسمتی سے آج نوجوان کو یا تو جذباتی مذہب دیا جا رہا ہے یا خشک عقلیت،دونوں انتہائیں نقصان دہ ہیں۔اس فکری انتہا پسندی کا علاج مناظرہ نہیں بلکہ مکالمہ ہے۔مکالمہ اس لیے ضروری ہے کہ جبر کبھی عقیدہ پیدا نہیں کرتا۔ عقیدہ دلیل، فہم اور حسنِ اخلاق سے پروان چڑھتا ہے۔ نوجوان کو یہ بتایا جانا چاہیے کہ خدا کا تصور محض روایت نہیں بلکہ فطرت کی آواز ہے۔ کائنات کا منظم نظام، اخلاقی اقدار کی عالمگیریت، انسانی ضمیر کی خلش اور دعا کی تاثیر، یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس کائنات کے پیچھے کوئی شعور اور حکمت کار فرما ہے۔
اخلاقی دلیل یہاں سب سے مضبوط ہے۔ اگر خدا نہیں تو اچھے اور برے کی بنیاد کیا ہے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ جب اخلاق کو محض سماجی معاہدہ بنا دیا گیا تو طاقتور ہی حق دار ٹھہرا۔ مذہب انسان کو یہ شعور دیتا ہے کہ طاقت کے اوپر بھی ایک طاقت ہے اور یہی تصور ظلم کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔الحاد کی روک تھام کا مطلب سوال پر پابندی نہیں بلکہ درست رہنمائی ہے۔ مسجد،خانقاہ، مدرسہ، تعلیمی ادارے اور میڈیا،سب کو مل کر ایک سنجیدہ فکری محاذ قائم کرنا ہوگا۔ نوجوان کو سوال کرنے کا حق دینا ہوگا اور جواب دینے کی ذمہ داری بھی قبول کرنا ہوگی۔ یہی زندہ قوموں کی پہچان ہے۔
اگر ہم نے آج فکری سطح پر غفلت برتی تو کل اخلاقی سطح پر اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔
میری دانست میں الحادی سوالات کا جواب دینے کی سب سے بڑی زمہ داری خانقاہوں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ ماضی میں بھی ہر قسم کی الحادی تحریک کا سامنا خانقاہی روایات نے کیا۔مادیت پرستی کی دوڑ میں ہم نے خانقاہ اور خانقاہی نظام کو پس پشت ڈال کر محض ظاہری اور مادی اشیا کو اپنا مقصد قرار دے دیا ہے اور یہی امر فکری زوال کا پیش خیمہ بنا ہے۔خانقاہی روایات انسان دوستی پر مبنی ہیں۔ہر انسان کی عزت کرنا اور مخلوق خدا کو کھانا کھلانا یہ ہماری خانقاہی روایات کا مرکزی حصہ رہا ہے۔خانقاہ ہی واحد جگہ ہے جہاں ہر قسم کا سوال پوچھا جا سکتا ہے اور صوفی ہی وہ واحد ادارہ ہے جو سوال کا جواب دے سکتا ہے اور جواب کی چوٹ سے دل کے بند دروازے پر دستک دے سکتا ہے۔انسان کا دل اللّٰہ کا گھر ہے اس پر لگے ہوے الحاد کے تالے توڑنے کے لیے خانقاہ کو ہی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔