گزشتہ کالم میں ،یورپی یونین اور اس سے وابستہ جی ایس پی پلس کا ذکر کیا تو چند احباب نے یہ نقطہ نظر پیش کردیا کہ اگر پاکستان کے امریکہ سے تعلقات بہتر ہوتے چلے جاتے ہیں تو ایسی صورت میں یورپی یونین سے معاشی مفادات یابہ الفاظ دیگر جی ایس پی پلس اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کیلئے کسی اور حکمت عملی کو مرتب کرنیکی ضرورت نہیں رہے گی ۔ بد قسمتی سے پاکستان کے اعلیٰ سطح کے سفارتکاروں سے لے کر چاہے ملازمت پر ہوں یا ریٹائر ہو چکے ہوں یا دیگر، ان امور پر نظر رکھنے والے افراد بدستور اس غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کے امور کو ایک ہی عینک سے دیکھ رہے ہیں حالانکہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے اور اس بہتے پانی کو صرف ٹرمپ کی موجودگی سے جوڑنا بھی درست نہیں ہوگا ۔ امریکہ کی طاقت کی حکمت عملی کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ امریکہ کسی بادشاہ کے ماتحت اسکی جاہ و حشمت کو ثابت کرنے کیلئے عالمی سیاست میں نہیں آیا تھا اور نہ ہی ایسا تھا کہ وہ اپنے قریب سے کسی شکست کی خفت کو مٹانے کیلئے متحرک ہوا تھا بلکہ اس نے سب سے پہلے اپنے بر اعظم میں ہی قدم مضبوط کئے اور پھر عالمی سیاسی بساط پر حالات کے جبر نے نو آبادیاتی طاقتوں کو ایسی شہ مات دی کہ وہ سب امریکہ کے دربار میں کھڑے ہونے پر مجبور ہو گئے ۔ اس تمہید کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ امریکہ کے تازہ ترین سیکورٹی ڈاکٹرائن کے جاری ہونے کے بعد یہ کہا جانے لگا کہ امریکہ پسپا ہو رہا ہے یا کم از کم اپنے آپ کو سمیٹ رہا ہے حالانکہ حقیقت بس اتنی ہے کہ امریکہ جہاں سے پیسے کمانے میں کمی کا امکان محسوس کر رہا ہے وہاں سے ہاتھ کھینچ رہا ہے اور انکو اپنی نئی شرائط پر’’پارٹنر شپ‘‘کا آفر لیٹر دے رہا ہے اور یہ بالکل بھی ضروری نہیں کہ اسکی شرائط پر ہر کوئی آفر لیٹر قبول بھی کرلے ۔ یورپ بھی اس حوالے سے پس و پیش کر رہا ہے اور یہ دیکھ رہا ہے کہ امریکہ یورپ سے اور روس سے کس قسم کے معاملات طے کرنا چاہتا ہے ۔ یوکرائن کی جنگ کے حوالے سے عمومی تصور یہ ہے کہ یورپ یہ جنگ امریکہ کے ايما پر لڑ رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یورپ اس جنگ کو لڑ ہی اس سبب سے رہا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ روسی خطرے سے بچاؤ کیلئے امریکہ کی حمایت کے آگے اب بہت سارے سوالیہ نشانات لگ چکے ہیں اور روس کو اگر ابھی نہ روکا گیا تو ایسی صورتحال میں روس مزید جنگی اقدامات بھی کر سکتا ہے ۔ یورپ میں آج کل ایک بات عام کہی جا رہی ہے کہ ماسکو اور برلن کے درمیان کوئی پہاڑ نہیں، راستہ بالکل سیدھا ہے ۔ روس بلا شبہ یہ کہہ رہا ہے کہ اسکا مزید کسی جنگی مہم کا ارادہ نہیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ وہ اگر مگر کی گفتگو بھی کر رہا ہے ۔ ان حالات میں جب امریکی سیکورٹی ڈاکٹرائن سامنے آیا اور اس دستاویز کو روس نے بہت حد تک اپنے خیالات سے ہم آہنگ کہا تو پھر یورپی ممالک کے اس پر پریشان ہونے کے امکانات سو فیصد تھے جو سامنے بھی آئے ۔ اس صورت حال میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک نے بہت واضح بیان دیا کہ روس کا اگلا ہدف یورپ ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ امریکہ اب یوکرائن جنگ کے خاتمہ کو اسٹرٹیجک استحکام کا عنوان دے رہا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اب یورپ کو خطرے کے احساس کے باوجود اس سے محفوظ رکھنے کا مصمم ارادہ کیوں ظاہر نہیں کر رہا ۔ جواب وہی ہے کہ اگر یورپ معاشی طور پر ان امور میں امریکہ کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہے تو پھر تو امریکہ دوبارہ بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کرنے میں منہمک ہو جائیگا اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو پھر وہ اپنے وسائل کو یورپ میں نہیں جھونکنا چاہتا اور اپنے قرب و جوار یا بر اعظم میں سے اپنے مفادات کو حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ جب صدر ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور صدارت کے آغاز میں کینیڈا ، گرین لینڈ ، پاناما کینال پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا تو یہ کوئی صرف انکی سیمابی طبیعت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ امریکہ اپنی ترجیحات کو از سر متعین یا بیان کر رہا تھا اور اسکا تازہ ترین مظہر ہم وینزویلا میں امریکی فوجی اقدامات آئل ٹینکر کی’’ حراست‘‘وغیرہ کی صورت میں دیکھ رہے ہیں ۔ یورپ بھی اس صورت حال کا بہت باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے اور اسی لئے وہاں سے ایسے اقدامات سامنے آ رہے ہیں جو امریکہ کی مرضی و منشا کے مطابق نہیں ۔بہ الفاظ دیگر یورپ اس کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ خود بھی اپنی سلامتی چاہے فوجی ہویا اقتصادی کو قائم رکھ سکتاہے ۔ اس وجہ سے ہی یورپی یونین ٹیکنالوجی کے شعبے کے حوالے نئے ریگولیشنز نافذ کر رہا ہے ، ڈیجیٹل مارکیٹ ایکٹ جیسے اقدامات کر رہا ہے حالانکہ امریکہ اسکے جواب میں غیر ملکی سروسز پر پابندی عائد کرنے یا کم از کم بھاری فیس نافذ کرنے کی ’’دھمکی ‘‘دے رہا ہے مگر یورپ اپنی ڈگر کو ابھی تک تبدیل نہیں کر رہا اور اس سے یہ واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ اور یورپ مکمل طور پر ایک صفحہ پر موجود نہیں ۔ اسرائیل کے حوالے سے بھی حقیقی صورتحال یہی ہے ۔ اس تمام صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی فیصلہ سازوں کو یورپ کے حوالے سے بالکل جدا گانہ حکمت عملی اختیار کرنا چاہئے کیونکہ اب بہت سے امور میں یورپ اور امریکہ کی سوچ میں فرق آ رہا ہے اور اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہی ہم جی ایس پی پلس اسٹیٹس یا دوسرے امور کو بطریق احسن نمٹا سکتے ہیں۔