• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب بھی انڈیا یا مغربی دنیا کے کسی بڑے شہر میں دہشتگردی ہوتی ہے تو سوال یہ نہیں ہوتا کہ حملہ کیوں ہوا، سوال یہ ہوتا ہے کہ الزام کس پر ڈالنا ہے۔ سڈنی میں پیش آنے والے حالیہ دہشتگردی کے واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ بین الاقوامی میڈیا کے لیے انسانی جانوں سے زیادہ قیمتی چیز بیانیہ ہے۔ گولی چلنے سے پہلے ہی اسکرینوں پر فیصلے صادر ہونے لگتے ہیں، اور تحقیق مکمل ہونے سے پہلے ہی مذہب، قوم اور ریاستیں کٹہرے میں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ یہ صحافت نہیں، یہ طاقت کے مراکز کی زبان ہے۔

سڈنی کے واقعے میں ملوث افراد نے خود کو مسلمان ظاہر کیا، اور بعد ازاں ان کے داعش سے روابط سامنے آئے۔ یہی لمحہ تھا جب عالمی میڈیا کے ایک بڑے حصے نے ’سکھ‘ کا سانس لیا۔ انہیں ایک بار پھر وہی پرانی سرخی مل گئی جس کی انہیں تلاش تھی۔ اسلام اور دہشتگردی کو ایک ہی جملے میں جوڑ دیا گیا، بغیر یہ سوچے کہ داعش اسلام کے نام پر سب سے زیادہ مسلمانوں کا خون بہا چکی ہے۔ فرد کے جرم کو مذہب کی پہچان بنا دینا مغربی میڈیا کی وہ عادت ہے جو اب صحافتی تعصب سے آگے بڑھ کر سیاسی ہتھیار بن چکی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی سڈنی میں ایک اور منظر بھی موجود تھا، مگر وہ کیمرے کی آنکھ کو اس خاص اینگل سے نظر نہیں آیا۔ ایک شامی نژاد مسلمان شہری، جو خود اس حملے میں زخمی ہوا، حملہ آوروں کے سامنے کھڑا ہوا، انہیں قابو کرنے میں مدد دی، اور متعدد جانیں بچائیں۔ اگر یہی کردار کسی اور مذہب یا نسل سے تعلق رکھتا ہوتا تو اسے ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا، مگر چونکہ وہ مسلمان تھا، اس لیے اس کی خبر اور کہانی چند سطروں سے اور ہیڈ لائنز آگے نہ بڑھ سکی۔ مغربی میڈیا کی یہ خاموشی اس کے نام نہاد انسانی حقوق کے بیانیے پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

یہاں معاملہ صرف مذہب تک محدود نہیں رہا، بلکہ براہ راست سیاست میں داخل ہو گیا۔ بھارت اور اسرائیل سے منسلک ڈیجیٹل نیٹ ورکس نے فوراً فیک نیوز کی ایک منظم مہم شروع کر دی۔ دعویٰ کیا گیا کہ حملے میں ملوث نوید اکرم اور اس کے والد پاکستانی ہیں۔ مقصد واضح تھا، دہشتگردی کو پاکستان کے ساتھ نتھی کرنا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں، ہر بڑے واقعے کے بعد یہی حربہ دہرایا جاتا ہے، افسوس کہ بین الاقوامی میڈیا کا ایک حصہ ان دعوؤں کو بغیر تصدیق آگے بڑھا دیتا ہے۔

اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے اندر کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اس فیک نیوز کو پورے جوش و خروش سے قبول کرتے ہیں۔ انہیں نہ تحقیق کا انتظار ہوتا ہے، نہ سچ سامنے آنے کی فکر۔ ان کا مسئلہ دہشتگردی نہیں، ان کا مسئلہ پاکستان ہے۔ وہ ہر ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جس سے وہ اپنی ہی ریاست کو عالمی سطح پر مجرم ثابت کر سکیں۔ یہی لوگ خود کو آزاد خیال، ترقی پسند اور روشن فکر کہلواتے ہیں، مگر ان کی فکر کا واحد مرکز اور محور نفرت ہے۔

جب تحقیقات سامنے آئیں تو حقیقت پوری طرح بے نقاب ہو گئی۔ نوید اکرم اور اس کے والد کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کے روابط بھارت سے نکلے، اور داعش سے وابستگی کی تصدیق ہو گئی۔ یہ وہ مرحلہ تھا جہاں ذمہ دار صحافت کا تقاضا تھا کہ غلط خبر پھیلانے والے معذرت کرتے، وضاحت دیتے، اور اپنی ساکھ بچانے کی کوشش کرتے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وہی زبانیں جو کل تک چل رہی تھیں، اچانک گنگ ہو گئیں۔

یہ خاموشی اتفاق نہیں، یہ حکمت عملی ہے۔ کیونکہ فیک نیوز پھیلانے والوں کا مقصد سچ بتانا نہیں ہوتا، بلکہ تاثر قائم کرنا ہوتا ہے۔ جب تاثر بن جائے تو سچ غیر متعلق ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ عالمی میڈیا نے اپنی غلطی تسلیم کی، نہ مقامی دانشوروں نے۔ انہیں شرمندگی ہوئی اور نہ ہی احساس ذمہ داری۔ گویا جھوٹ بولنا ان کا حق تھا اور ان کے مطابق حق بھی یہی تھا ۔

سڈنی کا واقعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ اصل میں بندوقوں کی نہیں، بیانیوں کی جنگ ہے۔ اگر عالمی میڈیا مسلسل مذہب اور دہشتگردی کو ایک ساتھ جوڑتا رہے گا، اگر ریاستوں کو بغیر ثبوت کے مجرم بنایا جاتا رہے گا، تو یہ آگ صرف مشرق کو نہیں جلائے گی، ایک دن مغرب بھی اس کی لپیٹ میں آئے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں بیٹھے وہ لوگ جو ہر فیک نیوز پر لپک پڑتے ہیں، آخر وہ کس کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ تنقید اور نفرت میں فرق ہوتا ہے۔ جو لوگ بغیر تحقیق کے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کریں، وہ نہ آزاد خیال ہیں اور نہ دانشور۔ وہ دراصل عالمی فیک نیوز انڈسٹری کے مقامی ایجنٹ ہیں، جو اپنی ہی ریاست کی ساکھ کا سودا چند لمحوں کی داد کے بدلے کر دیتے ہیں۔ایک بات واضح ہونی چاہیے۔ اگر دہشتگردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تو پھر اسلام کو ہر واقعے کے بعد کٹہرے میں کھڑا کرنا بند کیا جائے۔ اگر پاکستان ہر جگہ مجرم نہیں تو پھر اسے زبردستی اس کہانی میں فٹ کرنا ختم کیا جائے۔ اور اگر خود کو’’دانشور‘‘ کہلوانا ہے تو سچ بولنے کی جرات بھی پیدا کی جائے۔ ورنہ تاریخ ایسے لوگوں کو آزاد خیال نہیں، بلکہ سچ کے قاتل کے طور پر یاد رکھتی ہے ۔

تازہ ترین