• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اے میرے قائد اور مسیحاعیسیٰ ابن مریم

ہم بنا سمجھے کہ تم کیا تھے، کیسے جئے اور زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور قائد! تم وہی ہو جو کراچی میں انگریزی میں تقریر کر رہے تھے اور ہمارے سادہ لوگ بڑے دھیان سے سن رہے تھے۔ پڑھے لکھوں نے وسیع تر مجمع سے پوچھا ’’کیا پتہ چلا کہ کیا کہا ہے قائدنے؟ سب نے یک زبان جواب دیا بول تو انگریزی رہا تھا مگر لگتا سچا ہے ۔ یہ تھی وہ قوم جو بن کے رہے گا پاکستان، کہتی ہوئی جہاں جگہ ملی بیٹھ گئی۔ افسر زمین پر کاغذ پھیلائے ، کانٹوں سے جوڑ کر الگ الگ رکھ رہے تھے۔ نعرے لگانے والے جوان، بزرگوں کو گود میں بھر کر کبھی پیدل ، کبھی کسی بیل گاڑی میں پاکستان کی طرف لارہے تھے۔ جو چند ٹرینیں چلی تھیں، ان میں اوپر اور اندر بھیڑ بکریوں کی طرح بچے بڑے اور لڑکیاں برقعوںکو سمیٹتی روتی کراہتی آ رہی تھیں کہ ان پر دوسرے مذہبوں کے لوگ ہاتھوں میں چھریاں یا کرپان لیے حملہ آورہوکر چڑیا کی طرح دبوچ کر لے جا رہے تھے۔

یہ ہے ہلکا سا نقشہ ان قربانیوں کا جو آج سیاسی بڑے کہتے نہیں تھکتے کہ ہم نے بڑی قربانیوں کے بعد پاکستان حاصل کیا تھا۔ میرے قائد! تمہیں زندہ رہنے کا شوق، ملک بنانے کا جنون تھا۔ مگر سیاست چسکارے گدھوں کی طرح نحیف قائد کو دیکھ رہے تھے اور آخری زیارت سے کراچی تک کے سفر میں ایسی گاڑی بھیجی جس کا پیٹرول ختم ہو گیا تھا۔ بلکتے ہوئے قائد ان کی بہن خون کے آنسو روتے ہوئے، صدارتی مرکز میں پہنچے تھے۔

میرے آج کے بڑے سیاست دانوں تمہیں تو علم بھی نہ ہو گا کہ ابھی انڈیا سے پاکستان کے حصے کی رقم نہیں پہنچی تھی۔ یہ سارے اخراجات اور تنخواہیں راجہ صاحب محمود آباد نے ادا کیے۔ وہ علی ہمدانی کی آواز ریڈیو پر گونجتی رہی کہ یکایک رندھی ہوئی آواز کہہ رہی تھی ’’ہمارا قائد زندگی سے رہائی پا گیا‘‘۔

سول سروس کے لوگوں کو انتظامات سنبھالنے بھیج دیا گیا تھا۔ پہلے وہ سب آپا دھاپی میں پڑ گئے۔ اپنی مرضی کے گھر، عہدہ، مراعات، خود طے کیں۔ انہیں خبر تو تھی کہ کس طرح پیدل ، بیل گاڑیوں اور ٹرینوں میں بھرے غریب، وطن کے متوالے ، ننگے پاؤں خوش خوش آرہے تھے۔ اب آیا الاٹمنٹ کا زمانہ۔ منٹو صاحب کو کسی کا چھوڑا ہوا برف خانہ دیا گیا۔ انہوں نے ناراض ہو کر واپس کر دیا۔ یہ بندر بانٹ اب تک جاری ہے۔ باقاعدہ محکمہ اور وزیر ہے۔ یہ الگ بات کہ ہر حکومت کا الاٹمنٹ کا وزیر، حکومت ختم ہوتی تو جیل کی ہوا کھاتا۔ اور کیا کھایا یہ تو آج تک کسی نے بتایا ہی نہیں۔ بس یہ بے وقوف توشہ خانہ تھانے پر ابھی کل ہی تو سترہ سال کی سزا کے مستحق ٹھہرے اور اسکولوں میں پڑھنے کو کہا گیا ’’اے قائد اعظم ترا احسان ہے احسان لیاقت علی خان کا قتل ہو کہ قلعہ میں حسن ناصر کا، بے نظیر کا اور اس کے باپ کا پھانسی گھاٹ سینکڑوں سندھیوں، پشتون اور بلوچ ، سرداروں کے ہاتھوں، زمینوں کے جھگڑے میں بے موت مارے گئے۔

کراچی اور پورے سندھ کی باگ ڈور، زبان کے نام پر ایسے غنڈہ عناصر کے ہاتھوں میں آئی کہ بوری میں بند لاشیں ، ہر گلی کوچے میں نظر آنے لگیں۔ لوگوں کے گھروں کے ساتھ کیا ہوا۔ یہ داستان اجمل کمال، فہمیدہ ریاض اور آصف فرخی نے لکھی، پاکستان کو چھوڑ کے جانے کا سلسلہ اس زمانے میں شروع ہوا۔ اب تو ہزاروں گدا گر سعودیہ اور دیگر ممالک سے پکڑے جا رہے ہیں۔ بحری جہازوں کے ذریعے منشیات کاکھیل بھی خوب کھیلا گیا۔

میرے قائد! آپ نے کابینہ بنائی تو ایسی ہندواور دیگر مذاہب کو بھی شامل کیا۔ پھر قرار داد مقاصد نے پوری یکتائی کو رول کے رکھ دیا۔ کبھی تو کتنے فی صد ہندو اور مسیحی کو ہم خاکروب بنا کر خوش رہے۔ اب مودی سے خفگی کو ایسے نکالا جا رہا ہے کہ بیساکھی بھی ہو رہی ہے دیوالی اور حسن ابدال میں سکھوں کا میلہ، ہر دو ماہ بعد ہو رہا ہے۔

حضرت عیسیٰ! آپ سے کیا کہوں اب تو سارے ملکوں کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں پستول ہے۔ سیدھا ماتھے پہ مارتے ہیں کہ بچے نہ غزہ میں جو قتل و غارت ہوا اور جاری ہے ۔ یہ شام، یمن اور وینزویلا جیسے ممالک میں بھی نفرتیں ابھاری جا رہی ہیں۔ ٹرمپ صاحب، امن کے نام پر پھیلا رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں تازہ شکار کون ہو گا۔ فوج تو ہر ملک میں ہے۔ آدھی سے زیادہ دنیا میں فوجی سربراہ ہیں۔ پاکستان میں تو ہر دو سال بعد تخت یا تختہ ہوتا رہتا ہے۔ مگر ہمارے فیلڈ مارشل قلم کی اہمیت پہ بہت زور دے رہے ہیں۔ اللّٰہ کرے یہ افغانیوں کو قلم پکڑنا اور امن کے لئے استعمال کرنا سکھا دیں۔

اب میرے مسیحا عیسیٰ ابن مریم! تم میں خدا نے قوت گویائی پیدا ہوتے ہی عطا کر دی تھی۔ تم تو لا علاج بندوں کو تندرست کر د یتے تھے۔ دنیا میں اتنی بڑی مسیحی آبادی کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم ہونے کی عادت چھڑاؤ۔ ان کے گھروں میں کھانے کو نہیں۔ دنیا بھر میں جنگ و جدل کے زہر کو نابود کر دو۔ پاپائے عالم تو بزرگ ہوتے ہیں۔ وہ ملکوں ملکوں جاتے ہیں۔ انسانیت کی روح ان میں ایسی بھر دیں کہ ان کے الفاظ میں وہ برکت ہو کہ قومیں محبت اور رفاقت کے ساتھ رہنا سیکھیں۔

اے رب العالمین! سو سے اوپر تیرے نام لیوا۔ ان میں دولتیں اور معدنی قوتیں بھی دی ہیں مگر یہ خود پر اعتماد نہیں کرتے ۔ پھر مغربی اقوام کا ڈھول بجانے لگتےہیں۔ اللّٰہ میاں انہیں عقل دے۔ عیاشیوں کی جگہ جھونپڑیوں میں رہتے بلکتے بچوں اور لاچار بزرگوں کے کام آئیں۔

پاکستان میں کوئی ایسی قوت حکمران ہو جو اپنے دوروں، اپنے خاندان کی آرائش و زیبائش کی جگہ قوم کیلئے کام کرےقوم کو چھت چاہیے بچوں کی صحت اور اسکول چاہیے۔اللّٰہ میاں! یہ سال تو مصیبت بھر تھا۔ اےخدا! جن کے ہاتھ میں قلم ہے انہیں معاف کرنے کی توفیق دے۔

تازہ ترین