• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا بھر میں ریجنل کوآپریشن آرگنائزیشنز فعال اور مضبوط ہورہی ہیں جن کا بنیادی مقصد علاقے اور خطے میں امن و ترقی اور عوام کی قسمت سنوارنا ہے اور اس مقصد کے حصول کےلئے خطے کے تمام ممالک نہ صرف مل کرچلتے ہیں بلکہ تمام شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دیتے ہیں ،ا س کی بہترین مثالیں ، شنگھائی تعاون تنظیم ،آسیان ،یورپی یونین نافٹاوغیرہ ہیں۔یہ امر دل چسپی سےخالی نہیں کہ "نافٹا" میں امریکہ سے لے کرپاناما تک کے ممالک شامل ہیں ،باہمی تعاون اور اعتماد کا عملی مظاہرہ ایسا بے مثال ہے کہ،امریکہ سے پاناما لے جائے جانے والا کارگوراستے میں نہ کسی رکاوٹ کا شکار ہوتاہے،کوئی ٹول ٹیکس دینا پڑتا ہے اور نہ کوئی ڈیوٹی۔
1985میں ایشیائی خطے کے سات ممالک پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش،مالدیپ،بھوٹان اور نیپال نےسارک تعاون تنظیم کی بنیاد رکھی،سارک چارٹر کے تحت مقصد تھا خطے کو درپیش چیلنجزسے نمٹنے کا لائحہ عمل بنانا،عوام کے آپس میں رابطوں کو مضبوط بناکر صاف پانی اور بہترخوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے سمیت معاشی واقتصادی اہداف کی مشترکہ تشکیل اورحصول ،خاطر خواہ وسائل پیدا کرنے کےلئے باہمی تعاون کو مضبوط بنانا بھی شامل تھا،تاہم زمینی حقائق اور افسوسناک صورت حال سارک ممالک کے غریب اور نہتے عوام کا منہ چڑھانے کے لئے کافی ہے۔سارک کے پلیٹ فارم سے سیکرٹریز، وزراء اور وزرائے اعظم کی سطح کے بنائے گئے مختلف فورمز معاشی ،اقتصادی ،تجارتی ،موسمیاتی تبدیلیوں، ثقافتی اور تعلیمی سطح کے مقرر کردہ اہداف کے حصول میں اب تک کسی بھی حد تک کامیاب نہیں ہوسکے،عالمی امور کے بعض ماہرین کی نظر میں یہ فورم غیرموثر اور محض ایک "ڈبیٹنگ "فورم بن چکاہے،جہاں تمام "پروٹوکولز" کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان ممالک کے اعلیٰ حکام ایک دوسرے کے ہاں جاتے ہیں ،مصافحہ کرتےہیں،تقاریر سنتے اورسناتے ہیں اور پھر کسی بھی نقطے یا معاملے پر اکتفا کرتے ہوئے اپنے ملکوں کو واپس چلے جاتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہےکہ یہ خطہ آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا خطہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق صرف پاکستان،بھارت اور بنگلہ دیش کی آبادی ملائی جائے تو یہ دنیا کے بڑےاکثریتی مذہب عیسائیت سے بھی زیادہ بن جاتی ہے،خطے کے ممالک کےاہم اور بنیادی مسائل ایک سے ہیں جبکہ جنوبی ایشیاکے اس خطے کی اہمیت کا یہ پہلو بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتاکہ سب سے بڑے اور پرانے تنازعات بھی انہی ممالک کے درمیان پائے جاتے ہیں ۔جن میں مسئلہ کشمیر سرفہرست ہے۔اہم بات یہ ہےکہ مسئلہ دو ملکوں اور تیسرے فریق کشمیریوں کے درمیان ہے لیکن "متاثر" سارک کےرکن تمام ممالک ہیں، حتی کے ان دیگرملکوں کے تعلقات کا انحصار بھی پاک بھارت تعلقات پر ہے،بھارت چونکہ رقبے ،آبادی اور کسی حد تک معاشی اعتباد سےایک بڑا اور بااثر ملک ہے اس لئے دیگر چھ ممالک کا جھکاؤ بالعموم بھارت کی طرف رہتاہے،اس کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پانچ ملک بھارت کے سرحدی طور پرقریبی پڑوسی بھی ہیں ،لہٰذا ان ممالک کی ترجیح اور مختلف شعبوں میں بھارت پر انحصار و مرہون منت ہونا فطری ہے،
حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام کی آزادی کی تحریک میں تیزی نے بھارت کو بوکھلا کر رکھ دیاہے اور وہ ریاستی دہشت گردی کے ذریعے معصوم کشمیری نوجوان (خواتین ومرد اور بچوں) کو بربریت کا نشانہ بنا رہا ہے، اس کشیدہ ماحول میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک وزراء داخلہ کانفرنس انتہائی اہمیت اختیار کرگئی،جس میں پاکستان کی حمایت کی پاداش میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کوپھانسی دینے والے ملک بنگلہ دیش کے وزیرداخلہ جوابدہی کے عمل سےبچنے کےلئےخوف کے مارے پاکستان ہی نہیں آئے،بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ دنیا کو دکھانے کےلئےوفاقی دارالحکومت آئے تو، مگر وزیرداخلہ چوہدری نثارکےکشمیریوں کی آزادی کی تحریک پر "دوٹوک و سخت گیر"موقف کا ایسا نشانہ بنے کہ کانفرنس کی پہلی نشست کے بعد ہی واپس اپنےدیس بھاگ کھڑے ہوئے،،تاہم عوام کا سوال اپنی جگہ ہے کہ اگر یہی کچھ ہونا تو ہوتاہے تو پھر یہ سارک فورم کس مرض کی دوا ہے، اگر باہمی تنازعات یا علاقائی امن کی کوششوں پر بیٹھ کر بات ہی نہیں ہوسکتی تو پھر اس بیٹھک کا مقصدمحض دکھاوےکے سوا کیاہے؟کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیراعظم نوازشریف اس نازک صورت حال کو بھانپتے اور ترجیح بناتے ہوئے اپنے "جمہوری دوست" مسٹر موڈی" کو اعتماد میں لینے کےلئے" ایک اور مرتبہ ٹیلیفون کرلیتے کہ کم از کم نہتے عوام پر چھرے کی بندوق کا ظلم تو روک دیں ،بیشک اس "سارک کانفرنس " تک ہی ، جیسے جناب وزیراعظم نے لندن میں "دل کے کھلے آپریشن" سے قبل "جمہوری دوست " کو کال کرکے دعا کی درخواست کی اور پھر اڑتالیس دن بعد اپنے وطن واپس آنے سے قبل بھی "نیک خواہشات" کا "شکریہ" ادا کرنے کےلئے ٹیلی فون کیا ،کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی حالیہ سنگین خلاف ورزیوں اور نہتے بہن بھائیوں کا قتل عام رکوانے کےلئے بھی "ہاٹ لائن" پر رابطہ کرتے، چلو یہ نہ کرتے تو کم از کم مسٹر مودی سے سارک کانفرنس میں شرکت کرنے والے ان کے وزیر داخلہ کے ذریعے حالات کی سنگینی پر "تھوڑا" شرمندہ یا پشیمان ہونے اور آئندہ ایسے واقعات نہ ہونے کی گارنٹی ہی دلوالیتے،سارک کے فورم سے امن بات چیت کے سلسلے میں بھارت سے پہل کرنے کا مطالبہ ہی کردیتے تو شاید اس "بیٹھک " کا منظر تلخ اور اختتام اتنا بے اعتنائی سے نہ ہوتا،کہا جاتاہے کہ دنیا میں تمام مسائل کاحل بالآخر مذاکرات کی میز ہی ہوتا ہے تاہم موجودہ تناظر میں غیر متوازن و عدم مساوات کے رویے کے سبب خطے میں بے امنی کے فروغ نے بھارت کی انسان دشمنی کا چہرہ بے نقاب کردیاہے،دنیا کی بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار، اشتعال انگیزی کی تمام حدیں پار کرچکاہے ،یہ وہی بھارت ہےکہ جس کے اپنے نوبل لوریٹ معروف معیشت دان امرتاسین اپنی کتاب
“An Uncertain Glory: India and its Contradictions”
میں لکھتے ہیں کہ آزادی کے بعد سیاسی نظام اور جمہوریت پر یقین رکھ کر معاشی طاقت بننے کے خواب دیکھنے والا ایسا ملک ہے جہاں آج پچاس فی صد انسانوں کو ٹوائلٹ جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں،غربت کا عالم یہ ہےکہ ہرسال پینتالیس فی صد بچے انتہائی کم وزن پیدا ہوتے ہیں۔اس کےعلاوہ بھی بے شمار مسائل ہیں،گو بھارت میں ترقی کا پوٹینشل ہے لیکن اس کو اپنے ہاں بسنے والے انسانوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
گو کہ پاکستان سمیت دیگر سارک رکن ملکوں کے حالات بھی کوئی تسلی بخش نہیں تاہم ان ممالک میں "جمہوریت " مشترک فیکٹر ہے،عوام کا سوال ہے کہ اتنے سارے مسائل کے باوجود جمہوریت کےنام پر اقتدار میں آنے والے "ووٹ "لینےکے بعد ان کی زندگیوں کو سہل اور پرامن بنانے کےلئے بھی کچھ تو کریں ،بڑے مسائل نہیں تو کم ازکم چھوٹے مسائل کے حل کا آغاز تو کریں تاکہ بوسیدہ اور پراگندہ ماحول میں امید کی کوئی کرن نظر آئے اور آنے والی نسلیں "جمہوریت پسندوں" کو ان کے "ٹھوس" اقدامات پرخود کو مثالی معاشروں میں تبدیل کرکے خوش حال زندگیاں گزارنے کے قابل ہوسکیں ،وگرنہ دیگر مصنوعی اقدامات و اعلانات سمیت سارک کا فورم اپنے "ٹھس" ہونے کی مثال تو بن ہی رہاہے۔


.
تازہ ترین