• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک منکسرالمزاج اور قناعت پسند بندہ ہوں۔ کبھی لالچ نہیں کیا۔ لیکن بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کی خواہش ضرور ہے۔میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ میرے پاس فراری گاڑی ہو‘ایپل کا لیپ ٹاپ ہو‘دو کنال کا چھوٹا سا بنگلہ ہو‘بینک میں زیادہ نہیں صرف چھ سات کروڑ پڑے ہوں اوربیس پچیس لاکھ ماہانہ تنخواہ ہو۔ ایک قناعت پسند انسان اس سے زیادہ کچھ نہیں مانگتا۔اس کیلئے میں ہر ماہ باقاعدگی سے پرائز بانڈ خریدتاہوں‘ بینک ڈکیتیوں کی خبریں غور سے پڑھتاہوں اورجب کچھ بن نہیں پاتا تو دل کو سمجھاتا ہوں کہ اللّٰہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔میں جب ان لوگوں کو دیکھتا ہوں جو دنوں میں امیر کبیر ہوگئے تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ یہ حرام مال کمانے کی طرف چل پڑے ہیں۔مجھے سخت نفرت ہے ایسے لوگوں سے جو بجلی کی رفتار سے ترقی کرتے جارہے ہیں۔ میرے ایک محلے دار کے پاس 88 ماڈل کی موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی‘ پھر پتا نہیں ایسا کیا ہوا کہ اس کے پاس پہلے آٹھ سو سی سی کار آئی ،پھر ایک ہزار سی سی‘ پھر تیرہ سو سی سی اور آج کل وہ نئے ماڈل کی 1600سی سی گاڑی میں گھومتا ہے۔ایک دن میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اسے بہت اچھی کمپنی میں نوکری مل گئی ہے اوراب و ہ عنقریب کینیڈا شفٹ ہورہا ہے۔ یہ سنتے ہی میں نے بظاہر اس کو مبارکباد دی لیکن اندر ہی اندر جتنی بددعائیں تھیں اس کو دے ڈالیں۔ میں چاہتا تو اس سے بھی زیادہ ترقی کر سکتا تھا لیکن میں نے کہا ناں،میں ایک منکسرالمزاج بندہ ہوں۔

٭ ٭ ٭

یونیورسٹیوں میں اکثروہ لوگ ماس کمیونیکیشن پڑھا رہے ہیں جنہیں انجینئرنگ پڑھانی چاہیے۔ہاکی وہ سکھا رہے ہیں جنہوں نے ساری زندگی فٹ بال کھیلا۔ تعلیم کے ماہر وہ بنے ہوئے ہیں جنہیں بینکنگ کا بہترین تجربہ حاصل ہے۔ یہ سب اس لیے غیر متعلقہ شعبے کے سربراہ بن جاتے ہیں کیونکہ ان کا کسی کے ساتھ مقابلہ نہیں ہوتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم اگراُستاد ہیں تو ہمارے کالج کا پرنسپل بے شک کوئی گلوکار بن جائے لیکن ہمارے لیول کا کوئی اُستاد اِس مرتبے پر فائز نہ ہونے پائے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ظاہری بات ہے اس سے بڑی اذیت کوئی نہیں ہوسکتی۔ ایسے میں کوئی میرٹ‘ کوئی قابلیت ہمیں قبول نہیں ہوتی، چونکہ ہمیں نظر انداز کیا جاتاہے لہٰذا دل کی بھڑاس نکالنےکیلئے ہم منتخب ہونے والے شخص کے بارے میں جو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں کہہ گزرتے ہیں، ایک جملہ تو ہمارے دلی اطمینان کا باعث بنتا ہے”حکومت کے آگے بک گیا ہے“۔ایسا بندہ اگر ہماری طرح ٹھوکریں کھاتا پھرے تو ہمیں بہت اچھا لگتاہے، تب ہم زور و شور سے لکھتے ہیں کہ حکومت ایک قابل بندے پر اپنے نااہل لوگوں کو ترجیح دے رہی ہے۔لیکن جونہی یہ قابل بندہ کسی قابل قدر منصب کا اہل قرار پاتاہے ہماری توپوں کا رخ اس کی طرف ہوجاتاہے۔ میں نے کئی لوگوں کو اپنے جگری دوست کادشمن بنتے دیکھا ہے‘ وجہ صرف یہ تھی کہ دوست ترقی کرگیا تھا۔ اُردو میں اسے ”حسد“ اور پنجابی میں ”سڑنا“ کہتے ہیں۔

٭ ٭ ٭

چھ ماہ پہلے میری ملاقات ایک ”ڈیم سیرئس“ انسان سے ہوئی۔اِن سے میرا تعارف میرے ایک دوست نے کرایا‘ اُس کا کہنا تھا کہ اگر تم اِن کو ہنسا کر دکھا دو تو میں تمہیں آدھا کلو کڑاہی کھلاؤں گا۔ لیکن ڈیڑھ گھنٹے کی مشقت کے بعد مجھے احساس ہورہا تھا کہ میں شرط ہار جاؤں گا۔یہ صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ میں نے موقع پاکر ان سے پوچھا کہ آپ ہنستے کیوں نہیں؟ ان کے چہرے پر اذیت کے آثار ابھر آئے۔ بولے”میں خود بھی ہنسنا چاہتاہوں لیکن کیا کروں ہنسی آتی ہی نہیں۔ چارلی چپلن سے لے کر موجودہ دور کے تمام کامیڈینز کی پرفارمنس دیکھ چکاہوں‘ ہر مزاح نگار کو بھی پڑھ کے دیکھ لیا ہے لیکن مجھے ہنسی نہیں آتی۔“ میں نے پوچھا”کیا یہ بیماری پیدائشی ہے یا اس کے اثرات شادی کے بعد نظر آنا شروع ہوئے تھے؟؟؟“ سپاٹ لہجے میں بولے”میری ابھی شادی نہیں ہوئی“۔ یہ ایک اور بڑا انکشاف تھا، مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایک کنوارے بندے سے ہنسی کیسے دامن چھڑا سکتی ہے۔ دو دن پہلے وہ دوبارہ میرے دوست کے ہمراہ میرے دفتر تشریف لائے اور میری آنکھیں پھیل گئیں۔ اب کی بار وہ بات بات پر ہنس رہے تھے،ہر جملے پر ان کا کان پھاڑ قہقہہ گونجتا اور میں سہم جاتا۔ میں ان سے اس کرشمے کا سبب پوچھنا چاہتا تھا لیکن وہ صرف ہنسنا چاہتے تھے، اس روز وہ اتنا ہنسے کہ ان کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ میں نے دوست کوایک طرف لے جاکر پوچھا”یہ سب کیا ہے؟ اِن کی بیماری اچانک کیسے ختم ہوگئی؟“۔ دوست نے گہری سانس لی اور آہستہ سے بولا”اب یہ مزاحیہ پروگرام نہیں دیکھتے بلکہ باقاعدگی سے سیاستدانوں کے بیانات سنتے ہیں،روزانہ اخبار پڑھتے ہیں اور ہنس ہنس کے بے حال ہوجاتے ہیں“

٭ ٭ ٭

حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ بھائی کو بھائی سے نفرت ہے، رشتہ دار ایک دوسرے سے ملنا پسند نہیں کرتے،پروفیشنل جیلسی ہر شعبے میں موجود ہے،نہ ہمیں ایک دوسرے کا لباس پسند ہے، نہ فرقہ، نہ رہن سہن،نہ گفتگو....ایسے میں سیاست میں بھی ایسی مخالفت در آئی ہے کہ دلائل سے بات کرنا جرم بنتا جارہاہے۔ اب وہی ٹھیک ہے جو گلا پھاڑ کر چلاتاہے اور کسی اور کو بولنے نہیں دیتا۔یہ سلسلہ جاری رہا تو دلیل سے بات کرنے والے کہیں دُبک جائیں گے اور وہی معتبر شمار ہوگا جو منہ میں لاؤڈ اسپیکر فٹ کیے کائیں کائیں کرے گا۔ خاموشی نصف شکست بنتی جارہی ہے‘،اگر آپ کسی چیخ وپکار کے دوران خاموش ہیں تو سمجھ لیں کہ آدھی لڑائی ہار گئے ہیں۔گالی نے دلیل کو دفن کر دیا ہے۔ بقول عطاء الحق قاسمی!”آج کل جابر سلطان سے زیادہ جابر عوام کے سامنے کلمہ حق کہنا مشکل ہے“۔

تازہ ترین