• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں آرٹس کونسل کے دروازے سے قدم اندر رکھا تو یوں محسوس ہوا جیسے شہر کے شور، گرد، بے چینی اور روزمرہ کی تلخیوں سے نکل کر کسی اور ہی دنیا میں داخل ہو گیا ہوں۔ ایک ایسی دنیا جہاں نہ ٹریفک کا شور تھا، نہ خبروں کی کڑواہٹ، نہ سیاست کی چیخ و پکار، نہ مہنگائی کا خوف۔ یہاں ہر چہرہ جیسے کسی اندرونی خوشی میں نہایا ہوا تھا۔ نوجوان، بزرگ، عورتیں، بچے، طالب علم، ادیب، فنکارہر عمر، ہر طبقہ، ہر فکر کے لوگ ایک ہی جذبے میں اکٹھے نظر آ رہے تھے۔کہیں چند نوجوان رقص کی ریہرسل میں محو تھے، ان کے قدموں کی تھاپ میں زندگی کی رمق تھی۔ ذرا آگے چند لڑکیاں اور خواتین کسی ڈرامے کے مناظر کو دہرا رہی تھیں، مکالمے فضا میں تیر رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر کتابوں کے اسٹال سجے ہوئے تھے، جہاں ہاتھوں میں کتابیں، آنکھوں میں چمک اور چہروں پر وہ مسکراہٹ تھی جو کسی محبوب مصنف سے دستخط کروا لینے کے بعد ہی آتی ہے۔ یہ محض ایک تقریب نہیں تھی، یہ ادب، رنگ، روشنی اور احساس کی ایک مکمل دنیا تھی۔اسی دنیا میں میں اٹھارویں عالمی اردو کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کیلئے پہنچا تھا۔ 25 دسمبر، قائداعظم کا یومِ پیدائش،کرسمس کا تہوار اور اردو کا جشن۔ ہال میں داخل ہوا تو تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ لوگ اپنے پسندیدہ شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور کالم نگاروں کو دیکھنے اور سننے کیلئےبے تاب تھے۔ یہ ہجوم نہیں تھا، یہ عقیدت تھی، محبت تھی، اردو سے جڑی ہوئی ایک اجتماعی خواہش تھی۔جب گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری احمد شاہ کے ہمراہ ہال میں داخل ہوئے تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ یہ تالیاں محض کسی منصب کیلئے نہیں تھیں، یہ اس ادارے کیلئے تھیں جو برسوں سے شہر کے دل میں چراغ جلائے ہوئے ہے۔ تقریب کا آغاز ہوا، اور نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹرہما میر نے سنبھالی۔ ان کی آواز میں اعتماد تھا، لفظوں میں روانی تھی، اور گفتگو میں ایک ٹھہرا ہوا وقار۔ بات ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ احمد شاہ صاحب کی آواز گونجی کہ میری تعریف میں کوئی لفظ نہیں کہا جائے گا۔ ہال میں ایک قہقہہ گونج اٹھا۔ یہی لمحہ بتا رہا تھا کہ یہ تقریب بوجھل نہیں ہوگی، یہ زندہ رہے گی۔احمد شاہ صاحب کی تقریر میرے لیے حیرت کا سبب بنی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ کوئی شخص بغیر تحریر کے، بغیر کاغذ کے، اتنی مکمل، مربوط اور تاریخی گفتگو کر سکتا ہے۔ اٹھارہ برس کی اردو کانفرنسیں، ان کے واقعات، ان کے لوگ، ان کے لمحےسب ان کے حافظے میں محفوظ تھے۔ اردو کی اہمیت، فنونِ لطیفہ کا معاشرے میں کردار، اداروں کی کمی اور پھر ان اداروں کو کھڑا کرنے کی جدوجہدسب کچھ ان کی گفتگو میں ایک دریا کی طرح بہتا رہا۔ یہ تقریر نہیں تھی، یہ ایک داستان تھی۔ اس کے بعد گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے مائیک سنبھالا۔ انہوں نے اپنے اے ڈی سی کی دی ہوئی تحریر ایک طرف رکھ دی اور فی البدیہہ گفتگو شروع کی۔ یہی وہ لمحہ تھا جہاں سیاست پیچھے رہ گئی اور انسان سامنے آ گیا۔ اردو کو رابطے کی زبان قرار دینا، اسے عالمی سطح پر زندہ زبان کہنا، آرٹس کونسل کے سماجی اثرات کا اعتراف یہ سب سن کر احساس ہوا کہ شاید گورنر صاحب اب صرف سیاست دان نہیں رہے، وہ ایک اچھے مقرر بھی بن چکے ہیں۔ ہال میں موجود معروف شخصیات افتخار عارف، جاوید جبار، سہیل وڑائچ، مظہر عباس، ڈاکٹر ہما بقائی، مصطفی قریشی، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور دیگر شخصیات کی گفتگو سنتے ہوئے ایک خیال بار بار ذہن میں آتا رہا۔ جب گفتگو دل سے نکلے، علم سے نکلے، تجربے سے نکلے اور فی البدیہہ ہو، تو اس کا نشہ کچھ اور ہوتا ہے۔ لیکن جب چھ سات صفحات کی تحریر مائیک پر آ کر پڑھی جائے، اور وقت پچیس سے تیس منٹ تک کھنچ جائے، تو سننے والا بھی تھک جاتا ہے۔ بڑے ناموں کی بڑی بات یہی ہوتی ہے کہ وہ کم لفظوں میں زیادہ بات کہہ جاتے ہیں۔ وہ گفتگو ہی یاد رہتی ہے۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے صرف ایک کانفرنس نہیں کی، اس نے پورے پاکستان کو جوڑ دیا ہے۔ اپنے پروگراموں، اپنی کنکٹیویٹی، اپنی سوچ کے ذریعے۔ ملک بھر میں موجود آرٹس کونسلوں میں اگر کسی ایک ادارے نے عالمی سطح پر اپنی پہچان بنائی ہے تو وہ یہی ادارہ ہے۔ دنیا بھر سے ادیب، شاعر، دانشور یہاں آتے ہیں۔ کئی دوسرے ممالک سے آنے والے شرکا سمیت جاپان سے اردو کے ماہر ڈاکٹر اتاکا کی موجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ اردو اب سرحدوں میں قید نہیں رہی۔میں جب آرٹس کونسل سے باہر نکلا تو کراچی پھر وہی تھاشور، دھواں، ہجوم، بے یقینی۔ مگر میرے اندر کچھ بدل چکا تھا۔ میں ایک ایسی دنیا دیکھ کر آیا تھا جہاں انسان آزادانہ سانس لیتا ہے، جہاں ادب زندہ ہے، جہاں اختلاف بھی مہذب ہے، جہاں انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں۔ یہی دنیا پاکستان کا بہتر مستقبل ہے۔احمد شاہ اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ سندھ حکومت بھی، جس نے اس ادارے کو سہارا دیا۔ اگر پاکستان کو ایک معتدل، مہذب اور روشن خیال معاشرہ بننا ہے تو اس کا راستہ ایسے ہی اداروں سے ہو کر گزرتا ہے۔ آرٹس کونسل کراچی اس راستے کا روشن چراغ ہےاور میں خوش ہوں کہ میں اس روشنی میں کچھ دیر بیٹھ سکا۔

تازہ ترین