• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محترم اچکزئی صاحب ! بصد احترام ،کون سے مذاکرات ،کس سے مذاکرات ، کس ایجنڈے پر مذاکرات، نہ آپ کے پاس حکومت کو دینے کیلئے کچھ ہے نہ حکومت آپ کو کچھ دینے کے قابل ، اڈیالہ جیل والا قیدی مذاکرات کا حصہ بننے کو تیار نہیں۔ کوٹ لکھپت کے قیدی مذاکرات و رہائی کی التجائیں کر رہے ہیں۔ علیمہ باجی اور سہیل خان آفریدی احتجاج پر احتجاج کی کالیں دے رہے ہیں اور کوئی انکی کال سننے کو تیار نہیں، کامیاب اُڑان پاکستان پروگرام کے دوران خود فریبی کا شکار اپوزیشن اتحاد اس حقیقت کو کیوں تسلیم نہیں کرتا کہ پاکستان کی موجودہ سیاست کے دو بڑے کھلاڑی اسٹیبلشمنٹ اور اڈیالہ جیل کے قیدی کے درمیان تعلقات صفرجمع صفر نتیجہ صفرکی سطح پر کھڑے ہیں اور ان میں بہتری کے امکانات دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے۔ ان حالات میں مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ۔ اچکزئی صاحب! تحریک تحفظ آئین کے پلیٹ فارم میں شامل جماعتوں کا اپنا سیاسی مستقبل کیا ہے۔ نہ کوئی بڑی سیاسی جماعت بشمول بڑے مولانا صاحب کی جے یو آئی ف نہ پیپلزپارٹی تو ایسا نحیف اپوزیشن اتحاد حکومت سے کون سا بڑا ریلیف حاصل کر سکتا ہے۔ فیض حمید کو سزا سنائی جا چکی، بانی پی ٹی آئی کو مختلف مقدمات میں مجموعی طور پر پچاس سال قید کا حکم ہو چکا۔ کوٹ لکھپت والے قیدی بھی 9مئی کے مقدمات میں سزا یافتہ ہو چکے۔ قیدی نمبر804کو مزید سخت ترین سزائیں سنائے جانے کے امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیںاور معلوم نہیں راتوں رات بننے والی نیشنل ڈائیلاگ کمیٹی کس کے اشارے پر وزیراعظم شہبازشریف کو باضابطہ طور پر خط لکھ کر کوٹ لکھپت والوں کی پیرول پر رہائی کی اپیلیں کر رہی ہے اور آپ ان حالات میں مذاکرات کی امید لگائے شفافیت،افادیت نتیجہ خیزی کی ضرورت پر زوردے رہے ہیں۔ یاد کریں جب ہم سب آپ کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ پاکستان کی خاطر معاشی و سیاسی استحکام کیلئے مذاکرات کئے جائیں تو اس وقت خیبرپختونخوا سے اسلام آباد پر چڑھائی کی کالیں د ے کر جلاؤ گھیراؤ کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ ابھی تک رکا نہیں، کوئی مذاکرات سے قبل اڈیالہ جیل کے قیدی سے بھی پوچھ لے کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں،کیا قیدی نمبر804کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ریاستی اداروں اور شخصیات کیخلاف زہر اگلنا بند ہوگیا ؟ پی ٹی آئی سے نو دو گیارہ ہونیوالوں، (فواد چوہدری، عمران اسماعیل، محمود مولوی) کو اب میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت یاد آ رہا ہے۔ حکومت کو کیا پڑی ہے کہ وہ دھکا اسٹارٹ چلتی ، رکتی جمہوریت اور ہچکولے کھاتی اٹھتی بیٹھتی معیشت کو سنبھالنے کی کوششوں کے دوران اپوزیشن اتحاد سے نتیجہ خیزمذاکرات کے پنگے میں پڑے، ملکی سیاسی و معاشی استحکام کی خواہش تو ہر کوئی رکھتا ہے لیکن مشکل وقت میں اگر اس ذمہ داری کوکسی نے حقیقی معنوں میں نبھایا ہے تو وہ ہیں فیلڈ مارشل سیدعاصم منیر اور انکے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں وزیراعظم شہبازشریف۔ ٹرمپ سمیت دنیا کے تمام عالمی رہنما دونوں کی عسکری ،معاشی کامیابیوں کی ببانگ دہل ستائش کر رہے ہیں، ٹرمپ صبح و شام فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، پاکستان سفارتی تنہائی سے نکل کر کامیاب سفارت کاری کی طرف گامزن ہے، آج بھارت ”لوزر“ اور پاکستان ہر محاذ پر” ونر“ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ یہ درد ناک حقیقت بھی سامنے ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے پاکستان کی معیشت کو جس دیوالیہ پن کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا آج مختصر ترین عرصے میں موجودہ نظام کی انتھک کوششوں سے وہی معیشت سانس لینے کے قابل نظر آ رہی ہے اور اگر یہ نظام اپنی پوری رفتار سے چلتا رہا تو ملکی معیشت جلد اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائیگی، محترم اچکزئی صاحب پاکستان آج جن بحرانوں ،انتشار، افراتفری ،سیاسی عدم استحکام کا شکار دکھائی دے رہا ہے اسکی بڑی وجہ قیدی نمبر804 کا زبان پر قابو نہ رکھنا ہے، انکی جماعت کے اندرون و بیرون ملک سوشل میڈیا نیٹ ورکس اب باقاعدہ طور پر دشمن کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ قیدی نمبر804 کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے برطانیہ میں ایک مظاہرے کے دوران طاقت ور ترین عسکری شخصیت کو دھمکیاں دینے کی جو ویڈیو جاری کی گئی ہے ان حالات میں تو مذاکرات صرف (مذاق رات ) ہی ثابت ہونگے۔ خواہش ہماری بھی یہی تھی کہ بامقصد وبامعنی سیاسی مذاکرات ہوں لیکن لوزر اور ونر کے درمیان مذاکرات کا کوئی پیمانہ نہیں۔ اچھا ہے اگر آپ کو دیر سے ہی سہی یہ احساس تو ہوا کہ ملک کو سیاسی و معاشی بحرانوں سے نکالنے کیلئے ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔ شفاف انتخابات کیلئے حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری ہونا ضروری ہے۔ متفقہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی ایک اہم آئینی ضرورت مگر اس عمل میں آپ کہیں نظر نہیں آتے ۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے مذاکراتی ایجنڈے کا ایک ہی پوائنٹ باقی بچتا ہے اور وہ ہے پارلیمان کی بالادستی، قانون کی حکمرانی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ مذاکرات پر آمادہ بھی ہیں اور 8 فروری کویوم سیاہ اور ہڑتال کی کال بھی دے رکھی ہے۔محترم اچکزئی صاحب یہ بات تو تحریک تحفظ آئین کی قومی کانفرنس کے اعلامیے اور خودساختہ نیشنل ڈائیلاگ کمیٹی کے خط سے صاف ظاہر ہو گئی کہ بانی پی ٹی آئی ”الطاف پلس“ بننے جا رہے ہیں، تحریک انصاف اڈیالہ اور کوٹ لکھپت گروپ تو سامنے آ چکے باقی رہےبیرسٹرگوہر اور اسد قیصر انہیں بھی کہیں نہ کہیں پناہ مل ہی جائیگی۔ آپ کیلئے مشورہ یہی ہے کہ حکومت سے مذاکرات سے پہلے بڑے مولاناسے دم کرائیں اور کوئی ایسا تعویز لیں کہ میاں نوازشریف اور آصف زرداری رام ہو جائیں۔ آپ نے مذاکرات کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا کر بہت بڑی ذمہ داری لے لی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ آپ یہ قومی ذمہ داری کیسے بطریق احسن نبھاتے ہیں اور اس کا نتیجہ کیا سامنے آتا ہے۔ ہمیں تو دھند ہی دکھائی دے رہی ہے۔

تازہ ترین