یہ مضمون گندم اور چینی کے حوالے سے میرے گزشتہ کالم کے تسلسل میں لکھا جا رہا ہے، جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ حکومت کو ان دونوں اسٹرٹیجک اجناس کی فعال اور بروقت خریداری کر کے مناسب ذخائر قائم کرنے چاہئیں۔ حکومتی حلقوں کے قریب بعض ذرائع نے اس تجویز پر اعتراض کیا کہ موجودہ پروگرام کے تحت انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے حکومت کو گندم اور چینی کی خریداری یا اسٹرٹیجک ذخائر بنانے سے Discouraged کیا ہے بلکہ عملاً اسے روک دیا ہےاسلئے اجناس کی منڈی میں ریاست کا کردار محدود ہو چکاہے اور حکومتی مداخلت کی گنجائش نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔اس مسئلے کی اہمیت کے پیشِ نظر میں نے IMF کی شرائط کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اس مطالعے سے ایک ناخوشگوار حقیقت سامنے آئی کہIMF کے اصل نقطۂ نظر کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی۔
گندم پاکستان کی بنیادی غذائی جنس ہے۔ اس کا براہِ راست تعلق قومی غذائی تحفظ، سماجی استحکام اور مہنگائی کے انتظام سے ہے۔ چینی کے برعکس، گندم کی قلت کو مکمل طور پر منڈی کی قوتوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا، کیونکہ اسکے سنگین معاشی اور سیاسی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔اسی لیے گندم کے اسٹرٹیجک ذخائر کسی پالیسی کی عیاشی نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت ہیں۔ خواہ ترقی یافتہ ملک ہوں یا ترقی پذیرموسمی اتار چڑھاؤ، رسد میں جھٹکوں اور بیرونی خلل سے نمٹنے کیلئے خوراک کی بنیادی جنس کابفر اسٹاکس رکھتے ہیں۔ درست انداز میں قائم ذخائر نہ صرف گھبراہٹ میں خریداری کو روکتے ہیں بلکہ قیمتوں کے شدید اتار چڑھاؤ کو بھی کم کرتے ہیں اور ریاست کو منڈی کی ناکامی کی صورت میں مداخلت کا اختیار دیتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ایسے ذخائر، اگر شفاف، محدود اور مالی طور پر قابلِ برداشت ہوں، تو IMF کے اصولوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہوتے ہیں۔
IMF نہ تو غذائی تحفظ کا مخالف ہے اور نہ ہی اسٹرٹیجک ذخائر کے تصور سے انکار کرتا ہے۔ اسکی تشویش اس طریقۂ کار سے متعلق ہے جسکے تحت پاکستان نے ماضی میں خریداری کی۔وقت گزرنے کیساتھ گندم اور چینی کی خریداری بینکوں سے لیے گئے قرضوں پر انحصار کرنے لگی، جو حکومتی ضمانتوں کے تحت تھے۔ یہ سرگرمیاں بجٹ سے باہر رکھی گئیں، آڈٹ کمزور رہا، نگرانی ناقص تھی اور ذخائر اس نیت سے جمع کیے گئے کہ انہیں بروقت فروخت کر کے قرض اتارا جائےجو کبھی نہ ہو سکا۔ قرضے رول اوور ہوتے رہے اور بالآخر نقصانات قومی خزانے کے کھاتے میں ڈال دیے گئے۔IMF کے نزدیک یہ دانشمندانہ غذائی پالیسی نہیں۔مسئلہ IMF نہیں، ریاستی نااہلی ہے۔اگر بالخصوص گندم کی خریداری پیشہ ورانہ اور مؤثر انداز میں کی جاتی تو IMF کے اعتراضات کی شدت کہیں کم ہوتی۔ بدقسمتی سے پاکستان کئی محاذوں پر ناکام رہا۔اول، گندم کے ذخائر بروقت جاری نہیں کیے گئے۔ قیمتوں کو مستحکم کرنے کیلئے ذخائر کو Counter-cyclical انداز میں استعمال کرنے کے بجائے، اجرا اس وقت کیا گیا جب منڈی پہلے ہی ایڈجسٹ ہو چکی تھی یا نئی فصل آنیوالی ہوتی تھی، جس سے قیمتوں میں مزید بے یقینی پیدا ہوئی۔دوم، مالی نظم و ضبط ناپید رہا۔ خریداری کے قرضوں کو منظم فروخت کے ذریعے اتارنے کے بجائے نیا قرض لے کر پرانا قرض چکایا جاتا رہا، جس سے غذائی تحفظ ایک مستقل مالی بوجھ بن گیا۔سوم، کمزور حکمرانی کے باعث ذخائر میں ضیاع، رساؤ اور غلط تقسیم ہوئی، جس نے نہ صرف مالی گنجائش کم کی بلکہ عوامی اعتماد بھی مجروح کیا۔یہ سب انتظامی ناکامیاں ہیں، IMF کی عائد کردہ پابندیاں نہیں۔دوسری جانب چینی ایک بالکل مختلف مسئلہ ہےجہاں گندم غذائی تحفظ کی بنیاد پر اسٹرٹیجک ذخائر کی حقدار ہے، وہیں چینی ایک مختلف نوعیت کا چیلنج پیش کرتی ہے۔ چینی کا شعبہ بتدریج ایک کارٹل کے زیرِ اثر آ چکا ہے، جہاں پیداوار، قیمتیں، برآمدات اور درآمدات طاقتور مفادات کے ہاتھوں میں ہیں۔IMF کی جانب سے چینی کی خریداری کی مخالفت اسی ساختی بگاڑ کی وجہ سے ہے۔ بار بار بیل آؤٹ، سبسڈی شدہ برآمدات اور نرم قرضے نااہلی کو انعام دیتے رہے ہیں اور خطرات عوامی شعبے پر منتقل ہوتے رہے ہیں۔IMF سے منسوب ایک تجویز یہ بھی ہے کہ حکومت اجناس کی منڈی میں مداخلت کے بجائے کسانوں کو براہِ راست کیش ٹرانسفر کے ذریعے معاوضہ دے۔ بعض محدود حالات میں یہ قابلِ غور ہو سکتا ہے، مگر یہ اسٹرٹیجک گندم ذخائر کا متبادل نہیں بن سکتا۔ کیش ٹرانسفر نہ تو منڈی کا بگاڑ درست کرتا ہے اور نہ ہی خوراک کی مستحکم فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ IMF کی ایک اور تجویز فصلوں کی انشورنس سے متعلق ہے۔ میری نظر میں یہ ترقی یافتہ معیشتوں میں تو ممکن ہے، مگر پاکستان جیسے تیسرے درجے کے ملک میں، جہاں کسانوں کی تعلیمی سطح کم ہے اور معیشت بڑی حد تک غیر دستاویزی ہے، اس نظام پر عملدرآمد تقریباً ناممکن ہے۔اسکے برعکس، گندم کے اسٹرٹیجک ذخائر پیدا کرنے والوں اور صارفین دونوں کو تحفظ دیتے ہیں، توقعات کو مستحکم رکھتے ہیں اور قیمتوں کے شدید اتار چڑھاؤ کو روکتے ہیں۔ایک قابلِ اعتبار خریداری اور ذخیرہ نظام چند بنیادی اصولوں پر قائم ہونا چاہیے۔ مثلاً ہر سیزن سے قبل پیداوار کے درست تخمینے،واضح اور سالانہ نظرثانی شدہ اسٹرٹیجک ذخائر کی حد،قیمتوں کے استحکام کیلئے قواعد کے تحت بروقت اجرا،خریداری کے مالیاتی انتظام کی پیشہ ورانہ نگرانی، بالخصوص چینی کے شعبے میں مسابقتی قوانین کا سخت نفاذ۔ایسا نظام غذائی تحفظ کی ضروریات پوری کر سکتا ہے، منڈی کو مستحکم رکھ سکتا ہے، اور IMF پروگرامز کے ساتھ ہم آہنگ بھی رہ سکتا ہے۔لہٰذاپاکستان میں گندم اور چینی کے بحران IMF کی ناگزیر شرائط کا فطری نتیجہ نہیں۔ یہ کمزور انتظامیہ، تاخیر زدہ فیصلوں اور مفاداتی گروہوں کے سامنے پسپائی کا شاخسانہ ہیں۔اصل انتخاب IMF اور غذائی تحفظ کے درمیان نہیں بلکہ انتظامی ناکامی اور ادارہ جاتی اصلاحات کے درمیان ہے۔ جب تک یہ انتخاب درست نہیں کیا جاتا، اسکی قیمت کسان اور صارف دونوں ادا کرتے رہیں گے۔