• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علما کو انبیاء کا وارث کیوں قرار دیا گیا؟ ایک حدیث نبوی کے مطابق بے شک علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں کیونکہ انبیاء کرام نے اپنی وراثت میں درہم و دینار نہیں بلکہ اپنا علم چھوڑا، جس نے اس میراث کو حاصل کیا اس نے انبیاء کی میراث کا بہت بڑا حصہ پا لیا۔ایک اور حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ علمائے حق زمین میں اُن ستاروں کی طرح ہیں جن کے ذریعے اندھیروں میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ کیا آج آپکو اپنے ارد گرد انبیاء کے وارث علمائےحق نظر آتے ہیں؟ جب ہم جبہ و دستار میں ملبوس باریش علماء کو حکمرانوں کی خوشامد کرتا دیکھتے ہیں تو وہ حدیث یاد آجاتی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنا بہترین جہاد ہے۔یعنی عِلم کو عمل کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔ قرآن مجید بار بار اللّٰہ سے ڈرنے اور سچ بولنے کا حکم دیتا ہے اور وعظ و نصیحت پر اُجرت نہ لینے کی تاکید کرتا ہے۔ جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق کو بہترین جہاد اسلئے کہا گیا کہ میدانِ جنگ میں جان کا جانا یقینی نہیں ، آپ اپنا دفاع بھی کر سکتے ہیں لیکن جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنے کے بعد جان کا جانا یقینی ہے۔ہم اُس کلمہ حق کو بہترین جہاد کے زمرے میں شامل نہیں کر سکتے جو آج کے دور میں کسی جابر سلطان کی پہنچ سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر سوشل میڈیا پر بہتان یا الزام کی صورت میں پھیلایا جاتا ہے۔ کلمہ حق کی بہترین مثال حضرت امامِ حسین ؓ کا انکار ہے۔ انہیں اس انکار کا نتیجہ معلوم تھا لیکن انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر کے محمد علی جوہر کو بھی یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ’’ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘۔حضرت امام حسینؓ کی روایت کو علمائے حق نے برقرار رکھا۔امام ابو حنیفہؒ،امام مالکؒ، امام جعفر صادق ؒاور امام احمدبن حنبلؒ جیسے بڑے علماء حکمرانوں کے دربار سے دور رہنے کی کوشش کرتے تھے ۔ عباسی خلیفہ منصور اپنے وقت کے بڑے عالم امام ابو حنیفہ کو قاضی (چیف جسٹس) بنانا چاہتا تھا ۔ انکار پر امام ابو حنیفہؒ کو جیل میں بند کر دیا گیا ۔ اُنہیں جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا تا کہ وہ یہ عہدہ قبول کر لیں لیکن وہ مسلسل انکار کرتے رہے ۔ اُن کا جنازہ جیل سے اُٹھا ۔ خلیفہ منصور نے امام مالک بن انس ؒاور امام جعفر صادق ؒ کو بھی ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا کیونکہ ان دونوں علماء نے اس جابر حکمران کی اطاعت سے انکار کیا ۔امام احمد بن حنبل ؒنے ایک اور عباسی خلیفہ المامون کی فرمائش پر فتویٰ دینے سے انکار کیا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ المامون کے مرنے کے بعد اُس کا بھائی معتصم باللہ خلیفہ بنا ۔ اُس نے امام احمد بن جنبلؒ کو اپنی اطاعت پر مجبور کیا ۔ انکار پر انہیں دربار میں کپڑے اُتار کر کوڑے مارے گئے ۔ ان علماء نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ اللّٰہ کی کتاب مومن کو غلامی کے طریق نہیں سکھاتی بلکہ ایسا علم عطا کرتی ہے جس پر عمل کر کے وہ دنیاوی طاقتوں کی غلامی سے آزادی حاصل کر لیتا ہے ۔ اللّٰہ کی کتاب کو حفظ کرنا واقعی بہت بڑی سعادت ہے لیکن مومن تو وہی ہے جو اس کتاب میں بیان کئے گئے علم پر عمل بھی کرتا ہے ۔ حجاج بن یوسف عراق کا گورنر تھا ۔ اُسی نے محمد بن قاسم کو ہندوستان بھیجا تھا ۔ وہ حافظ قرآن تھا لیکن اُسکے اعمال نے اُسے ظلم و جبر کی علامت بنا دیا ۔ ایک صحابی رسول حضرت عبداللّٰہ  بن زبیرؓ نے عبد الملک بن مروان کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو مروان نے انکی سرکوبی کیلئے حجاج بن یوسف کو مکہ اور مدینہ بھیجا۔ حجاج بن یوسف نے مکہ کی ناکہ بندی کی اور سنگ باری کا حکم دیا ۔مکہ اور مدینہ کے لوگ حضرت عبداللّٰہ بن زبیرؓ کی بڑی عزت کرتے تھے کیونکہ وہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے نواسے ، حضرت عائشہؓ کے بھانجے اورکئی نامور صحابہ کے شاگرد تھے ۔ حجاج بن یوسف نے اس بزرگ صحابی کو شہید کرکے اُنکی لاش کو تین دن تک سولی پر لٹکائے رکھا ۔ حضرت عبداللّٰہ بن زبیرؓ کی والدہ حضرت اسماء نے بیٹے کی لاش سولی پر لٹکتی دیکھی تو بولی کہ شہسوار ابھی اپنی سواری سے نہیں اترا ۔حضرت سعید بن جبیرؒ ایک تابعی بزرگ تھے ۔ انہوں نے ایک دن منبر پر کہہ دیا کہ حجاج ایک ظالم شخص ہے ۔ حجاج کو خبر ملی کہ سعید بن جبیر نے اسے ظالم کہا ہے ۔ اس بزرگ عالم دین کو گرفتار کر کے حجاج کے دربار میں پیش کیا گیا ۔ جابر حکمران نے پوچھا کیا تم نے مجھے ظالم کہا ؟ حضرت عبداللّٰہ ابن عباس ؓ، انس بن مالکؓ اور ابو موسیٰ اشعری ؓکے علاوہ حضرت عائشہؓ کے شاگرد سعید بن جبیر ؒنے جواب میں کہا ہاں تو ایک ظالم شخص ہے ۔ یہ سن کر حجاج غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اُس نے سعید بن جبیرؒکے قتل کا حکم دیدیا ۔ جب آپکو قتل کیلئے دربار سے باہرلیجانے لگے تو آپ مسکرا دیئے ۔ حجاج نے پوچھا مسکراتے کیوں ہو؟ سعید بن جبیر ؒنے جواب میں کہا تیری بے وقوفی پر مسکراتا ہوں۔ اللّٰہ تجھے ڈھیل دے رہا ہے۔ حجاج نے فوری حکم دیا اسے میرے سامنے ذبح کرو ۔ جب جلاد نے خنجر سعید بن جبیر کے گلے پر رکھا تو آپ نے چہرہ قبلہ کی طرف کیا اور کہا کہ اے اللّٰہ! میرا چہرہ تیری طرف ہے میں تیری رضا پر راضی ہوں یہ حجاج نہ موت کا مالک ہے نہ زندگی کا ۔ اب کی دفعہ حجاج نے حکم دیا اسکا چہرہ پھیر دو ۔جلاد نے چہرہ پھیر دیا تو سعید بن جبیر بولے یا اللّٰہ چہرے کا رخ جدھر بھی ہو تو ہر جگہ موجود ہے ۔ مشرق و مغرب ہر طرف تیری حکمرانی ہے ۔ انہوں نے کہا میری دعا ہے کہ میرا قتل اس ظالم کا آخری ظلم ہو ، اے اللّٰہ میرے بعد اس ظالم کو کسی پر مسلط نہ فرمانا۔یہ جملہ ادا ہوتے ہی ایک حافظ قرآن حکمران حجاج بن یوسف کے حکم پر سعید بن جبیرؒ کو شہید کر دیا گیا ۔ اُنکی شہادت کے چند دن بعد حجاج بن یوسف بیمار ہو گیا۔ وہ نفسیاتی مریض بن گیا۔ اُسے خواب میں سعید بن جبیرؒ نظر آتے تھے۔اسے بہت زیادہ سردی لگتی تھی ۔ اسکے ارد گرد آگ جلائی جاتی لیکن وہ ٹھٹھرتا رہتا ۔ حکماء نے بتایا وہ پیٹ کے سرطان کا شکار ہو چکا تھا۔ پھر اُس نے حضرت حسن بصری ؒکو دعا کیلئے بلایا ۔ وہ حجاج کی حالت دیکھ کر رو پڑے کیونکہ وہ جیتے جی نشان عبرت بن چکا تھا ۔ حجاج نے وصیت کی کہ مرنے کے بعد میری قبر کا نشان مٹا دیا جائے کیونکہ لوگ مجھے مرنے کے بعد قبر میں بھی نہیں چھوڑیں گے ۔ حضرت سعید بن جبیرؒ کی شہادت کے چالیس دن بعد حجاج کی موت واقع ہو گئی ۔ حجاج بن یوسف کی اطاعت سے انکار کرنیوالے عالم دین سعید بن جبیر ؒنے حضرت امام حسین ؓکی روایت کو آگے بڑھایا ۔ لیکن جب کچھ علماء جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کی بجائے اُسکی خوشامد شروع کر دیں تو پھر وہ علمائے حق نہیں علمائے سو کہلاتے ہیں ۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ علمائے حق حکمرانوں کے دربار میں حاضریاں نہیں دیتے بلکہ حکمران رہنمائی کیلئے خود چل کر علمائے حق کے پاس جاتے ہیں ۔ جب کوئی عالم جبہ و دستار پہن کر، حکمران وقت کے سامنے بیٹھ کر اُسکی شان میں قصیدے پڑھے بلکہ اسکے حق میں نعرے بازی شروع کر دے تو حکمران کو جان لینا چاہئے کہ یہ عالم نہیں بلکہ وہ ظالم ہے جو اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کیلئے دین فروشی کر رہا ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے والے حکمران فتوی فروش مولویوں کی خوشامد کے محتاج نہیں ہوتے ۔وہ جو بھی کرتے ہیں صرف اللّٰہ کی رضا کیلئے کرتے ہیں کسی انسان کی رضا کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔

تازہ ترین