• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توجہ برقرار نہ رہے تو درست اقدام بھی کچھ عرصے بعد غیر موثر ہو جاتے ہیں۔ پھر دھیرے دھیرے سب بھول جاتے ہیں۔ لاہور میں بائیکرز لین بڑے زور و شور سے شروع کی گئی تھی۔ سڑکوں پر نشانات لگائے گئے۔ موٹر سائیکلوں اور رکشوں والوں کو پابند کیا گیا کہ وہ اسی لین میں رہیں لیکن سارا غلغلہ چندروز ہی رہا اور اب حالت یہ ہے کہ سڑکوں پر سے نشانات تقریباً مٹ گئے ہیں اور ٹریفک پہلے کی طرح جاری ہے۔ اس کے برعکس تجاوزات کیخلاف آپریشن آج تک کامیابی سے جاری ہے لہٰذا بازار اور مارکیٹیں تاحال کشادہ نظر آتے ہیں اور کسی حدتک فٹ پاتھ بھی آزاد ہیں۔ پنجاب حکومت نے پلاسٹک شاپنگ بیگز پر بھی پابندی لگائی تھی لیکن یہ مہم بھی اب ناکامی سے دوچار ہے۔ چند بڑے اسٹورز کے علاوہ عام دکانوں پر چیزیں پلاسٹک کے شاپروں میں ہی دی جارہی ہیں۔ نانبائی کی دکانوں پر گرم روٹی ایک پتلے سے شاپر میں ڈال کر تھما دی جاتی ہے۔ یہ گرم روٹی پلاسٹک کو کیسے اپنے اندر جذب کرتی ہے اور پھر یہ روٹی کس طرح کینسر ہمارے اندر منتقل کرتی ہے کسی کو اس کا اندازہ تک نہیں۔

سنا ہے نانبائیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کم ازکم 80گرام کا شاپر استعمال کریں۔ براہ کرم یہ بھی بتا دیں کہ شاپر کو کیسے چیک کیا جائے کہ یہ 80گرام کاہے یا نہیں؟ کئی دکاندار مثلاً دہی بڑے والے، دودھ والے، چھوٹے ہوٹلوں والوں کا کہنا ہے کہ ہم کھانے کی چیز شاپر میں ڈال کرنہ دیں توپھرکیا کریں؟۔ انتہائی بوداجواز ہے۔ جب شاپر نہیں ہوتے تھے تو لوگ ایسی چیزیں کیسے لیکر جاتے تھے؟ یاد کریں ہم دودھ یاکوئی کھانے کی چیز لینے جاتے تھے توبرتن ساتھ ہوتا تھا۔ تنور سے روٹیاں لینی ہوتی تھیں تو کپڑا گھر سے لے کرجاتے تھے، دیگر اشیاء کیلئے تھیلا ہوتا تھا، ٹوکری ہوتی تھی۔یہی طریقہ کارآمد ہے۔

٭ ٭ ٭

کسی مشہور اور بہادر شخصیت کی بے عزتی ہوتی ہے تو ہمیں کتنا مزاآتاہے۔ اصل میں یہ وہ حسداورجلن کا جذبہ ہوتاہے جوہمارے اندرپل پل کر ٹکریں ماررہاہوتاہے کہ آخر ہم کیوں ایسے معروف نہیں، ہماری بہادری کااعتراف کیوں نہیں کیاجاتا۔ ایسے میں کسی کوتماشا بنایاجائے تو ہمارے کلیجے میں ٹھنڈ پڑجاتی ہے۔بڑا اچھا لگتا ہے جب پتا چلے کہ ہرشخص ہمارے جیسا ہی ہے۔اے ایس پی شہربانونے جب اچھرہ بازار میں جنونیوں کے انبوہ سے ایک ڈری سہمی خاتون کو بحفاظت نکالا تھا توہر طرف بلے بلے ہوگئی تھی۔ یہی وہ لمحہ تھاجب کئی دِلوں میں زہر بھی بھر گیا۔آج وہی شہر بانو سوشل میڈیا پر اس بات پر طعن و تشنیع کا نشانہ بن رہی ہیں کہ انہوں نے ایک پوڈ کاسٹ کے دوران فون پر اپنے عملے سے کسی کیس پر گفتگوکی۔یہ اتنا بڑا جرم تھا کہ جسکے منہ میں جو آیا اس نے کہا اور مزا لیا۔ایک میٹرو سٹی میں اے ایس پی کے رینک کی خاتون سے یہ سلوک ہوسکتاہے تو اندازہ لگائیں عام خواتین کس کس عذاب سے گزرتی ہوں گی۔شہربانو ایک بہادر پولیس آفیسر ہیں ا ورپوڈ کاسٹ کے دوران انہوں نے فون سن لیا تو کون سی قیامت آگئی؟ ہم اکثر کسی پروگرام میں مہمان کو بلاتے ہیں تو اسے پتاہی نہیں چلتاکہ مائیک آن ہے۔آپ نے کئی سیاستدانوں کی گفتگو بھی سنی ہوگی جومائیک سے بے نیاز ہوجاتے ہیں اورمائیک کھلا رہ جاتاہے۔نہ یہ کوئی اسٹنٹ تھا،نہ ا داکاری۔یہ اچانک ایک کال آئی جوکیمرے میں ریکارڈ ہوگئی۔ایسی بہادر خواتین کی حوصلہ افزائی کیاکریں جومحکمہ پولیس کی شان ہیں۔ اورشہربانو صاحبہ سے بھی گزارش ہے کہ یوں ہر پوڈ کاسٹ میں جانے سے گریزکریں، یہاں لوگ خود کو مردہ ثابت کرکے بھی ویوز بٹور جاتے ہیں۔

٭ ٭ ٭

خدا کے وجود پر ہندوستان کے فلمی شاعرجاویدا ختر اور مفتی شمائل کے مناظرے کے چرچے ہیں۔لوگوں نے خود ہی کسی کو فاتح اور کسی کو شکست خوردہ ڈکلیئر کردیاہے۔ جن کیلئے خدا نہیں تھا، آج بھی نہیں ہے اور جو خدا کو مانتے ہیں وہ کسی بھی بحث سے متاثر نہیں ہونے والے۔مجمع میں کسی سے پوچھ لیں کہ کیا اس بحث کے بعد کسی کا نظریہ بدلاہے؟۔ایسی بحثیں صدیوں سے ہوتی چلی آرہی ہیں۔ایک صاحب نے کمال کا جملہ لکھا کہ بحث جاوید اختراورمفتی شمائل کے درمیان ہوئی لیکن لاکھوں کے ویوز اُسے ملے جسکے چینل پریہ وڈیو اپ لوڈ ہوئی۔پہلے پوری وڈیو چلی، پھر شارٹس بنے، اب یہ بحث کانکتہ بن گئی ہے۔

جوجس ذہن کاتھا اسے یہ ساری گفتگو سن کر مزید تسلی ہوگئی ہے۔مجھے اس پر ایسی ہی ایک بحث یاد آگئی جو دو احباب کے درمیان ہورہی تھی۔ہم سب مزے سے ا ن کی گفتگو سن رہے تھے۔ ایک صاحب خدا کے وجود کے منکر تھے، دوسرے قائل تھے۔ وہاں کچھ معصوم حاضرین بھی موجود تھے۔ بحث طویل ہوتی گئی۔بالآخر جب تین گھنٹے ہوگئے تو سب تھک گئے اور اجازت چاہی۔اتنے میں ایک صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور سرکھجاتے ہوئے بولے’یہ توبتا دیں کہ اب صبح نماز پڑھنی ہے یا نہیں؟‘۔

٭ ٭ ٭

مجھے مختلف کتابیں پڑھنے کا موقع ملتا رہتاہے اور گاہے گاہے میں جس کتاب کاکچھ اثر خودپرمحسوس کرتاہوں اس بارے میں رائے کا اظہاربھی کر دیتا ہوں۔ اس وقت میرے پاس ہے ملتان سے تعلق رکھنے والی شاعرہ شازیہ رباب کی کتاب’بے صدا لمحے‘۔میںمحترمہ حمیدہ شاہین کی اِس رائے سے متفق ہوں کہ”اس کتاب میں چھپی صدائیں مصرع مصرع چونکاتی ہیں ا ور غزل غزل ایسا لطف عطا کرتی ہیں جو صرف شاعری سے ہی مخصوص ہے۔‘‘شازیہ کی شاعری میں مجھے نسائی جذبات کا ایک الگ اینگل نظر آیا ہے جس کامضمون شائد اس سے پہلے میری نظر سے نہیں گزرا۔مثلاً”مجھ کو سہنے پڑے ہیں دُکھ کتنے؍بھائی بہنوں میں، میں بڑی کیا ہوں؍بدنصیبی نے مجھ کو گھیر لیا؍تیری جانب ذرابڑھی کیا ہوں۔اورپھریہ شعر دیکھئے…دل میں ا مرت کا رس یہ گھولتی ہیں؍بیٹیاں جب بھی گھرمیں بولتی ہیں۔عورت ہونے کے ناطے انہوں نے معاشرتی رویوں پربھی بات کی ہے اوریوں کی ہے کہ اختلاف ممکن ہی نہیں رہا۔ملتان صوفیا ء ہی کی نہیں شعراء کی بھی سرزمین ہے۔ شاعری سے محبت رکھنے و الے اس کتاب کو ضرور پڑھیں۔

تازہ ترین