یہ تو خیر الزام ہے کہ قائد ملت لیاقت علی خان شہید نے روس کے دورے سے انکار کرتے ہوئے امریکہ کے دورے کی دعوت قبول کرلی تھی ، اور یہ بھی کہ روس اس لئے پاکستان پرغضبناک ہوا تھا کہ پاکستان نے کچھ دفاعی نوعیت کے ایسے اقدامات کئے تھے جو روس کیلئے نامناسب تھے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم کے زمانے میں ہی روسی ایجنٹ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی غرض سے عملی اقدامات کر رہے تھے اور قائد اعظم کو اس کا علم تھا۔ سوال یہ ہے کہ اب میں یہ گڑے مردے کیوں اکھاڑ رہا ہوں ؟ تاریخ سبق حاصل کرنے کیلئے ہوتی ہے نا کہ اس کے ذریعے حالات حاضرہ میں تلخیاں گھولنا مقصود ہونا چاہئے۔ تاہم اگر کوئی آج بھی اس تاریخی تسلسل کے ساتھ پاکستان کو دیکھ رہا ہو تو پھر بہت مجبوری بن جاتی ہے کہ اس تاریخی تسلسل کو پیش نظر رکھا جائے ۔ ڈھاکہ میں متعین روسی سفیر نے جب 1971ءکے بد قسمت واقعات کا ذکر کیا اور بنگلہ دیش کے عوام کو’’ انڈین‘‘ احسانات یاد کرانے کی کوشش کی تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آئی کہ روس آج بھی پاکستان کے حوالے سے دل میںوہی جذبات رکھتا ہے جن جذبات کی وجہ سے وہ اندرا گاندھی سے دفاعی معاہدہ عين مشرقی پاکستان میں بد امنی کے زمانے میں کر رہا تھا تا کہ پاکستان کو کسی بھی قسم کی بیرونی مدد ملنےکے امکان کو نا ممکن بنا دیا جائے اور مشرقی پاکستان میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی عدم توازن کا انڈیا کو بھرپور فائدہ حاصل ہوجائے۔
یہ تو تلخ ماضی تھا مگر اس کو حال میں دہرانے اور بنگلہ دیشی سیاست میں براہ راست پاکستان دشمنی کو استعمال کرنے سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو اب بھی روس اور اسکی ذہنیت سے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ اور یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں جو صرف روسی سفیر کی سطح تک محدود ہو یا صرف بنگلہ دیش کے تناظر میں اس کو بند کر دیا جائے بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو روس اعلیٰ سطح پر اسی راستے پر گامزن ہے جو پاکستان کی مخالفت کی شاہراہ پر جاتا ہے ۔ تمام دیگر دنیا کی مانند افغان طالبان کی حکومت کو پاکستان نے بھی سفارتی سطح پر تسلیم نہیں کیااور پھر ان سے ہمارے تعلقات کچھ معاندانہ بھی ہوتے چلے گئے ۔ انہی حالات میں روس نے افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیا ، انڈیا نے کابل کو ہلہ شیری دینا شروع کردی اور روس نے پیٹھ کو تھپتھپانا شروع کردیا ۔ ابھی جب صدر پیوٹن نے دہلی کا دورہ کیا تو انہوں نے اس وقت بھی طالبان کے حوالے سے اس نوعیت کی گفتگو کی جو پاکستان کے موجودہ مسائل میں اضافہ کا باعث ہے اور خاص طور پر جبکہ گفتگو نئی دہلی میں بیٹھ کر کی جائے تو پھر اس میں’’امکانات‘‘کا ایک جہاں پوشیدہ ہوتا ہے ۔ قوموں سے معاملات ان کی فکری کیفیت کو بھانپتے ہوئے طے کرنےچاہئیں ۔ پاکستان میں اینٹی امیریکن ازم کی وجہ سے ہم بہت جلد دیگر حقیقتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر روس سے تیل ملنا تھا یا نہیں ؟ وہ تیل ہمارے مفادات کو پورا کرتا یا نہیں ؟ یہ سب سوچے سمجھے بغیر نعرہ لگا دیا گیا کہ ہم روس سے تیل لینے لگے تھے اپنے دور حکومت کے عدم اعتماد سے ذرا قبل روس گئے تھے اس لئے امریکہ نے ہماری حکومت کو’’روانہ‘‘کر دیا اور عوام کو اسکے ذریعے سے متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ۔ جب اس نوعیت کی ذہن سازی کی کوشش ہوتی ہے تو پھر روس جو مرضی کرتا پھرے ، پاکستان میں اس کے امیج پر اثر نہیں پڑتا مگر اس وقت ہمارے ارباب اختیار کو روسی اقدامات کو بہت زیادہ باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان تو مختلف امور مثلاً انسداد دہشت گردی وغیرہ کے حوالے سے روس کے ساتھ مکمل طور پر کھڑا ہے ، دہشت گردوں کو گرفتار کرکے انکے حوالے تک کر رہا ہے مگر روس کے عزائم واضح کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو آج بھی انڈیا کی پہنائی گئی عینک سے دیکھتا ہے۔ اور ہم اگر انڈیا کے حوالے سے کسی خوش فہمی کا شکار تھے بھی تو وہ ساری خوش فہمی گزشتہ مئی کے واقعات میں پرزے پرزے ہو گئی ۔تب صرف نريندر مودی یا انکی جماعت کی ذہنیت سامنے نہیں آئی بلکہ اس رات انڈین میڈیا کے کردار نے واضح کر دیا کہ انڈین عوام بھی پاکستانیوں کو کسی المیہ سے دو چار ہوتے ہوئے دیکھ کر تالیاں پیٹنا چاہتے ہیں ۔ البتہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹنے سے لے کر گزشتہ مئی تک انکی امیدوں کے چراغ گل ہی ہو رہے ہیں ۔ایسے میں روس کا بنگلہ دیش کی سیاست میں اس حد تک برہنہ ہو کر کودنا اور پاکستان کے خلاف بنگالیوں میں جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کرنا ایسے اقدامات ہیں جنکے بعد پاکستان کو روس سے بہت چوکنا ہو جانا چاہئے۔