اقبال ساجد مرحوم نے کہا تھا
جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
دہائیاں گزر گئیں، تیسری نسل جوان ہو گئی، ہم ابھی تک بھونچال، بحران، نازک موڑ، چیلنج، ریاستی دہشت گردی، جیل، سلاخیں، چائلڈ لیبر، خواتین پر تشدد، آزادیٔ رائے کا قتل، بلند و بانگ دعووں، احتجاج، توڑ پھوڑ، دھرنے، الزامات، حب الوطنی، غداری، پولیس گردی، مہنگائی، توانائی کے بحران، بے روزگاری اور اداروں میں تصادم یا کھینچا تانی کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ اس کا الزام کسے دیں؟ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہئیں۔ یہ خاصا مشکل کام ہے۔ پرویز مشرف غدار ہے یا نہیں؟ ایمرجنسی کا نفاذ درست تھا یا نہیں؟ کراچی کے حالات کب ، کیسے اور کس طرح ٹھیک ہوں گے؟ ٹھیک ہوں گے بھی یا نہیں؟ بلوچستان میں پاکستان زندہ باد کے نعرے کب گونجیں گے؟ ہمارے گائوں میں بجلی کب آئے گی؟ ایم بی اے کی ڈگری ہاتھ میں لے کر سڑکوں پر آوارہ، بے مقصد پھرنے والے نوجوان کے ہاتھوں میں اپائنٹمنٹ لیٹر کب ہو گا؟ کاروکاری، ونی اور تیزاب کے جہنم سے ہماری عورت کب محفوظ رہے گی؟ چند سو روپوں کی پنشن لینے والے ضعیف پنشنر کی جھریوں سے گرد کب صاف ہو گی؟ سچ کہنے، بولنے، لکھنے اور دکھانے پر تعزیر کب ختم ہو گی؟ خوشامدیوں کے زندہ باد اور مخالفوں کے مردہ باد کے بے مقصد نعروں کی چڑیلیں کب ہمارا پیچھا چھوڑیں گی؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ آٹا، دال، چینی، ادرک، لہسن، پیاز اور ٹماٹر کب سستے ہوں گے؟ کس کے پاس ہے ان سوالوں کا جواب۔
منیر نیازی مرحوم نے کہا تھا
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
ہمارے سوال ہی غلط ہیں، ہماری سیاسی زندگی کی بنیادیں ہی غلط استوار ہوئی ہیں، جاہ پرستی، شاہ پرستی، موقع پرستی نے سماج کو بالکل ہی کھوکھلا کر دیا ہے۔ نوجوانوں نے امید لگائی تھی کہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف تبدیلی لائے گی۔ اول تو اس تبدیلی کا سورج اسی روز ہی گہنا گیا تھا جب دوسری جماعتوں کے روٹھےہوئے، ناراض، منحرفین تحریک انصاف میں سج دھج کے تزک و احتشام کے ساتھ مسند نشین ہو گئے۔ جذبے، حوصلے اور کچھ کرنے کی دھن میں مگن نوجوانوں کو پچھلی صفوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ یہ وہ جماعت ہے جو پوری طرح بننے سے پہلے ہی ٹوٹ گئی۔ 2013میں عام انتخابات سے پہلے جب اس جماعت کے انتخابات کرائے گئے تو دھڑے بندی پورے جوبن کے ساتھ سامنے آ گئی۔ عمران خان کا وژن واضح نہیں تھا۔ جماعتیں کسی خاص منشور پر چلتی ہیں ایشوز پر نہیں۔ عمران خان ایشوز کی سیاست کرتے رہے۔ ڈرون حملوں کا ایشو، طالبان سے مذاکرات کی ضد، اور پھر یوں ہوا کہ کہانی میں ایک موڑ آ گیا۔ کئی کئی مہینوں کےلئے ڈرون حملے بند ہو گئے، ایک ایشو ختم۔ طالبان سے مذاکرات کی ضد کرنے والے اب آپریشن کی حمایت کر رہے ہیں۔ دوسرا ایشو ختم۔ اب تحریک انصاف کہاں کھڑی ہے؟ دراصل سمجھانے والوں نے سمجھا دیا ہے کہ پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو فوج اور امریکہ کی اشیر باد حاصل ہونی ضروری ہے۔ عمران خان نے بہاول پور کے جلسے میں طبل جنگ بجا دیا ہے۔ اب میدان کے دوسری طرف کا منظر نامہ دیکھئے۔
11؍ مئی 2013کے بعد پہلے دن سے یہ تاثر عام ہے کہ موجودہ حکومت دو سال کے لئے برسر اقتدار آئی ہے، زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور 6ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کیاہوئے؟ اس حکومت کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ بچگانہ بیانات کی وجہ سے فوج اور حکومت میں اختلافات کا تاثر کیوں پیدا ہوا؟ چھوڑیئے یہ بڑی باتیں ہیں۔ کیا تھانہ کلچر ختم ہوا، نچلی عدالتوں میں کرپشن ختم ہوئی۔ آپ تو امن پسند حکمران ہیں۔ آپ کے عہد میں لاشیں کیوں گریں۔ آپ کہتے تھے کہ اشیائے ضرورت ایک پائی مہنگی نہیں ہونے دیں گے، کیا پیاز، ٹماٹر اور آلو سستے ہوئے۔ طبل جنگ تو بج گیا ہے۔ دونوں طرف کے ہتھیار کند ہیں۔ کند ہتھیاروں سے جنگیں نہیں لڑی جاتیں۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ ایک قومی ادارہ ایک طرف ہے اور دوسرا قومی ادارہ دوسری طرف۔ پھر اس جنگ کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ جب ادارے ہی نبرد آزما ہوں تو خون پیادوں کا ہو گا۔ مشہور کہاوت ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان گھاس کا ہی ہوتا ہے اور گھاس کون ہے۔ برسوں سے کچلے، پسے ہوئے غریب اور مظلوم پاکستانی۔ ن لیگ نے یہ جنگ اگر جیتنی ہے تو بیانات نہیں کارکردگی کی ضرورت ہے۔
آخر میں اپنا ہی ایک شعر
لمحوں نے چھین لی ہے رتوں سے شگفتگی
یہ سال موسموں کے تغیر کا سال ہے