• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں ’’حریت پسندوں‘‘ کا بحران کبھی پیدا نہیں ہوا۔ ملک کی دھرتی کی ا یک ایک اینٹ کے نیچے ایک سے زائد حریت پسند مچلتے، تھرکتے، بھڑکتے اور ابھرتے انداز میں آپ کو دستیاب ہوں گے۔ پہلے فوجی جرنیل ایوب خان کے اقتدار پر قبضے کے بعد ان کی پیدائش ، پرورش، ساخت اور پرداخت کی نرسریوں نے جنم لے لیا تھا۔ یحییٰ خان کو بھی یہ وافر تعداد میں میسرتھے۔ جنرل ضیاء کی آمد کے بعد تو اس’’ حریت پسند نسل‘‘ کے خاندانوں کی دنیاوی جبلت بھی بدل گئی۔ پاکستان کی تاریخ کا شاید سب سے قابل اعتراض دستور شکن جس نے آئین توڑا مگر ساتھ یہ کہہ کر اس آئین کی تذلیل کو تاریخ کا ناگزیر حصہ بنادیا’’یہ آئین کیا ہے؟ بارہ صفحے کا ایک کتابچہ ہی تو ہے جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں ‘‘مگر اس جرنیل کے ساتھ تو ایسے حریت پسند شامل ہوئے جنہوں نے برصغیر کی تاریخ میں پہلی اور شاید آخری بار ملک کی عدالت عظمی اور اس کے ججوں پر حملہ کیا اور اگلے روز اعلان کیا’’ہم قانون کی عظمت پر جانیں بھی قربان کردیں گے‘‘۔
سید یوسف رضا گیلانی، سابق وزیر اعظم پاکستان نے جنرل (ر) مشرف کو محفوظ راستہ دینے کے لئے گزشتہ منتخب پی پی حکومت کی قومی سیاسی وژنری پالیسیوں کے ایک تسلسل کی نشاندہی کی ، یہ بس اتنی سی بات تھی، اتنی سی بات میں البتہ بڑھک بازی اور رنگ بازی کا سودا مفقود تھا، یہ سودا پنجاب کے کلچر کی ایک سطح پر چلتا ہے، یہ سطح اس روز سے قومی شکل اختیار کرنے لگی جس روز (ن) لیگ کے قبیلہ حریت پسندوں کے کچھ سرداروں نے جنرل (ر) ضیا کے قافلہ ٔ جاں نثاروں میں شرکت اختیار کی تھی، بندہ پوچھے ایک بختوںماری قوم، جس کے جمہوری سفر کو بعض طالع آزما جرنیلوں نے بار بار کھوٹا کیا، اس سفر کی تکمیل کے لئے بسا اوقات کسی محفوظ خندق کا انتخاب کرکے راستہ بنالینے میں جذبہ آزادی و غیرت کو کیسے ’’ملیریا‘‘ ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ جن کی زندگیوں کا تقریباً ہر باب ’’مچھر چھانتے اور اونٹ نگلتے ہیں‘‘، کے اعمال سے لکھا گیا ہو وہ مگر وہی کرتے ہیں جو ان دنوں جنرل (ر) مشرف کے مقابلے میں ن لیگ کے’’قبیلہ حریت پسنداں‘‘ کی سیاست بردار کررہے ہیں۔ ان کے قومی اور سیاسی’’سی وی‘‘ کی حالت یہ ہے کہ 1990ء کے قومی انتخابات کی تاریخ، اصغر خان کی مشہور رٹ کے بعد، آئینی اور اخلاقی طور پر مشکوک ہوچکی، 1997ء کی دو تہائی اکثریت ابھی تک مشکوک ’’سربستہ راز‘‘ ہے، رہ گئی 2013ء کے قومی انتخابات میں حاصل شدہ، دو تہائی سے بھی زائد اکثریت، وہ عمران خان کے ایکسرے کی زد میں ہے جس کا شرطیہ پرنٹ 14اگست کو پیش کیا جاتا ہے۔ چلے ہیں جنرل(ر) مشرف کے مقابلے میں سالار آزادی کا مقام و مرتبہ حاصل کرنے، ابھی دس برس کے قصے کا کیا ذکر کرنا!
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے این آر او’’درگزر کرو، بھول جائو اور آگے چلو‘‘، کی حیات بخش راہیں اپنانے کے لئے کیا تھا، پاکستان پیپلز پارٹی نے رنگ باز بڑھک کے بجائے سیاسی وژن کے ساتھ اقتدار پر فائز ’’جنرل‘‘ کو اس کے ادارے کی کوئی توہین کئے بغیر حکمرانی سے فارغ کیا، یہ ایک حکمت عملی تھی پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آج بلاول زرداری بھٹو تک پی پی اور اس کے مخالفوں اور ناقدوں کو مختصراً سا یاد کرلیں!
پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ بھی المیے اور طربیےکا ایک حیرت کدہ ہے۔ سرمایہ داروں، مذہبی اجارہ داروں، چٹ کپڑیے دولت مندوں، فراڈ ئیے مڈل کلاسیوں، سیاسی اٹھائی گیروں، خاکی وہ غیر خاکی خفیہ ایجنسیوں کی تباہ کن کارستانیوں اور عوام کی سادہ لوحی نے اس جماعت کو زندہ دفن کرنے میں اپنی تگ و دو کی بازی لگادی بلکہ غلام اسحاق خان نے تو بینظیر بھٹو کی پہلی منتخب آئینی حکومت کی برطرفی کے موقع پر اپنی تقریر میں فیصلہ بھی دیدیا کہ ’’مردے کو نہلا دھلا کے کفن میں نے پہنادیا اب تدفین کا فریضہ آپ حضرت (یعنی مخالفین) انجام دے دیں‘‘، دفن کون ہوا؟ تاریخ نے کن کے لئے قبریں کھودیں، اب یہ ایک طربیہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے جتنے گورکن تھے یہ سب ان کی قبریں ہیں، پیپلز پارٹی جس طرح پہلے روز سے عوام دشمنوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی آج بھی اسی طرح کھٹک رہی ہے۔آپ دیکھیں پیپلز پارٹی کے حوالے سے پاکستان میں موجود اس کے مخالفوں اور ناقدوں نے کس طرح ذہنی بربادی میں اتنی زندگیاںگزاردیں مگر آج بھی پاکستان کی بقاء اور قومی سیاست کا راستہ پیپلز پارٹی کے غریب خانے سے ہو کے گزرتا ہے۔
یہ لوگ کردار کشی کی کہانیوں کی کس قدر بدصورت بنتیں کرتے رہے۔ ان بدصورت کہانیوں کے دریا کوزے میں بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں!
ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد صرف تین برس ،1970ء میں قومی انتخابات میں عوامی سند کا اعزاز حاصل کیا۔ بر سراقتدار آنے پر ذوالفقار علی بھٹو نے صنعتی و تعلیمی اداروں کو قومیانے کے تاریخ ساز فیصلے کی بنیاد رکھی، ہنگامی حالات نے جس فیصلے کے ثمرات سے قوم کو گو کافی حد تک محروم رکھا مگر اس اقدام کے کم از کم تعلیم کے معاملے میں ایسے نتائج تھے جن کے ترک کرنے سے آج ملک میں علم کا حصول پیسے کے کھیل میں مصروف ایک بڑے سٹاک ایکسچینج کے درجے پر پہنچ گیا ہے۔ جب بھی پیپلز پارٹی کو حکومت سے نکالا گیا یا اسٹریٹجی بنانےوالوں نے اسے قومی انتخابات میں شکست دلوائی ، پیپلز پارٹی کے اختتام یا صرف سندھ تک محدود کرنے کی ’’وبائی بیماریوں ‘‘ کے جراثیموں کے توڑوں کے منہ کھول دئیے گئے۔ ان دنوں بھی پی پی کو ’’سندھ کی جماعت‘‘ طے کرانے میں اپنی راتوں کی نیند اوردن کے چین کا خود اپنے ہاتھوں بیڑہ غرق کرتے رہتے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی قومی پارلیمنٹ میں ایک بڑی قومی سیاسی جماعت کی حیثیت سے معقول نشستوں کی تعداد میں ان کے سینے پر مونگ دلنے میں مصروف رہتی ہے۔
یہ بے چارے اس خمیر سے آگاہ ہی نہیں ہیں، ان کی تشکیل میں اس کے عناصر ترکیبی کا کوئی وجود ہی نہیں جس سے انہیں ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، بلاول زرداری بھٹو ،آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاسی اور فکری آئینے کا ادراک ہوسکے!
ذوالفقار علی بھٹو ایک مختلف استعداد کا حامل رہنما تھا، پاکستان پیپلز پارٹی برصغیر میں کانگریس سے بھی بڑی قومی سیاسی جماعت ہے جس نے عوام کے ووٹوں سے چوتھی بارعنان حکومت سنبھالی، آصف علی زرداری بھی ایک مختلف استعداد کا رہنما ہے، جس غلام اسحاق خان نے اسے کرپٹ کہا اس غلام اسحاق خان نے اس سے وزارت کا حلف اٹھوایا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بعض بادشاہ گر وں کے منہ پر ایک مستقل طمانچہ ہے۔ حریت پسندی کے شاہی مینارے پر چڑھ کے گلے پھاڑنے کی زیادہ ضرورت نہیں، جنرل مشرف(ر) کو سیاسی وژن کے نتیجے میں اقتدار سے فارغ کرکے ، جمہوری سفر بچالیا گیا تمہیں یہ سچائی سوفیصد معلوم ہے مگر فرینڈلی اپوزیشن کے ’’زہریلے سانپ‘‘ کی طرح ان دنوں’’ڈیل‘‘کے لفظ سے خود کو جمہوریت کا رستم زماں ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہو، پی پی کو چھوڑو، وہ دیکھو طاہر القادری اور عمران خان آرہے ہیں، ہوشیار!
تازہ ترین