کراچی(ٹی وی رپورٹ) مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر عبدالقیوم نے کہا ہے کہ دہشتگردی کیخلاف حکومت اور اپوزیشن کو متحد ہوجانا چاہئے، وزیراعظم نواز شریف نے اپوزیشن کو منانے کیلئے جاکر قابل تحسین قدم اٹھایا، پارلیمان کی سطح پر سیکورٹی اور انٹیلی جنس کمیٹی کی تجویز اچھی ہے،محمود خان اچکزئی ہمارے اتحادی ہیں مگر سیکورٹی ایجنسیوں پر تنقید کرنا درست نہیں ہے۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے بات کررہے تھے۔ پروگرام میں پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمن اور تحریک انصاف کے رہنما یار محمد رند بھی شریک تھے۔شیری رحمن نے کہا کہ اسمبلی سیشن سے اپوزیشن کا واک آؤٹ علامتی نہیں رویوں پر تھا، وزیراعظم عید کا چاند بن کر پارلیمنٹ میں آتے ہیں، اپوزیشن نے اتحاد کی بات کی تو ان کی تقاریر کا ٹی وی پر بلیک آؤٹ کردیا گیا،بلوچستان کا کوئی نمائندہ سوال اٹھائے تو اسے غیرمحب وطن نہ کہا جائے، محمود اچکزئی کو اس موقع پر یہ باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔یار محمد رند نے کہا کہ وزیراعظم پارلیمنٹ اور ملک کو وقت دیتے تو کوئٹہ جیسے سانحے نہیں ہوتے،محمود خان اچکزئی کو ملکی اداروں پر تنقید کے بجائے سانحہ کوئٹہ کے ذمہ داروں کی مذمت کرنی چاہئے تھی۔سینیٹر عبدالقیوم نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کا اسمبلی سے واک آؤٹ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوتا ،انہیں منانے جانا بھی پار لیما نی آداب کا حصہ ہے، وزیراعظم نواز شریف نے اپوزیشن کو منانے کیلئے جاکر قابل تحسین قدم اٹھایا، خورشید شاہ اور شاہ محمود قریشی کی مل بیٹھنے کی پیشکش کو سراہتے ہیں،پارلیمان کی سطح پر سیکورٹی اور انٹیلی جنس کمیٹی کی تجویز اچھی ہے، چوہدری نثار کا یہ مطلب نہیں کہ پیپلز پارٹی کے دور میں دھماکے ان کی نااہلی سے ہوتے تھے ،چوہدری نثار یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ امن و امان کی صورتحال بہتر ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن رہنماؤں کی تقاریر بھی کور ہونی چاہئیں، محمود خان اچکزئی ہمارے اتحادی ہیں مگر سیکورٹی ایجنسیوں پر تنقید کرنا درست نہیں ہے،پاکستان میں دہشتگر د ی کے پیچھے غیرملکی طاقتیں ہیں، سیکیورٹی ادارے دہشتگردی کے بیسیوں واقعات ناکام بنا تے ہیں لیکن اگر ایک واقعہ ہو جا ئے تو خبر بن جاتی ہے۔ سینیٹر عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کیخلاف حکومت اور اپوزیشن کو متحد ہوجانا چاہئے، افغان مہاجرین کی واپسی کا کام تیز ،سرحدوں کومحفوظ اور فاٹا اصلاحات کی جائیں۔ شیری رحمن نے کہا کہ اسمبلی سیشن سے اپوزیشن کا واک آؤٹ علامتی نہیں رویوں پر تھا، نیشنل سیکورٹی کمیٹی کوئی نئی بات نہیں ہے،یہ کمیٹی 2008ء میں پارلیمان کے ان کیمرہ اجلاس سے بنی تھی اور 2013ء تک چلی ہے، وزیراعظم عید کا چاند بن کر پارلیمنٹ میں آتے ہیں، اپوزیشن نے اتحاد کی بات کی تو حکومت نے ان کی تقاریر کا ٹی وی پر بلیک آؤٹ کردیا، جمہوریت میں عوامی نمائندوں کے درمیان اعتماد سازی پیدا کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بہت کچھ ایجنسیوں کے ہاتھ میں ہے، آپریشن ضرب عضب میں فورسز کی قربانیوں کا انبار ہے، یہ وقت ان پر انگلیاں اٹھانے کا نہیں ہے، اگر بلوچستان کا کوئی نمائندہ سوال اٹھائے تو اسے غیرمحب وطن نہ کہا جائے، محمود اچکزئی کوا س موقع پر یہ باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ شیری رحمن کا کہنا تھا کہ سانحہ کوئٹہ میں بلوچستان کے اہم ترین وکلاء شہید ہوگئے لیکن ہم غیرمتعلقہ بحث میں پڑگئے ہیں، عوام سنجیدہ قیادت اور مسائل کا حل چاہتے ہیں۔