• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قرآن مجید کی سورۃ النسا ء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ‘‘ اے ایمان والو۔ تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ۔ خواہ وہ گواہی خود تمہارے اپنے ، والدین یا رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ جس کے خلاف تم گواہی دے رہے ہو۔وہ مال دار ہے یا محتاج۔ اللہ ان دونوں کا زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ ۔اور اگر تم پیچ دار بات کرو گے یا پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے’’جب دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ملک بدترین حالات سے دوچار تھا۔برطانیہ کے تھنک ٹینک ملک کی بہتری کے لئے تگ و دو کررہے تھے تو مفکرین نے اس دور کے برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل سے اپنی فکر بیان کی تو چرچل نے اْن سے پوچھا ’’ کیا ہماری عدالتیں عوام کو انصاف مہیا کر رہی ہیں ؟’’ سب نے متفقہ طور پر ہاں میں جواب دیا تو سر ونسٹن چرچل نے کہا ‘‘پھر کسی فکر کی ضرورت نہیں’’۔
صد شکر کہ وطن عزیز میں بھی 6دہائیاں گزرنے کے بعد عدالتیں آزاد ہوئیں ہیں۔قانون کی حکمرانی و عدلیہ کی آزادی کے لئے سول سوسائٹی،وکلاء،میڈیا،سیاستدان نیز ہر ایک نے بھرپور جدوجہد کی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ آج ایک مرتبہ پھر ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے۔جمہوریت کو ڈانواں ڈول کرنے کے خواہشمند اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طریقے سے نظام گول ہو تو کہیں ان کی جگہ بنے۔میں سرونسٹن چرچل کی رائے سے اتفاق کروں گا کہ اگر آج پاکستان میں بھی عدالتیں عوام کو انصاف مہیا کررہی ہیں تو پھر کسی کو فکر کی ضرورت نہیں ہے۔نظام کی بقا خطرے میں نہیں پڑنے والی۔بلاشبہ ماتحت عدالتوں میں بہتری کی گنجائش موجود ہے مگر ملک کی اعلی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان انصاف ایسے مہیا کررہی ہے۔جیسے مہیا کرنے کا حق ہے۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور سے جو سلسلہ شروع ہواآنے والے تمام معزز جج اس پر کاربند ہیں۔
ملک میں آج کل سب سے زیاد ہ جمہوریت کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے ۔عمران خان ،طاہر القادری،چوہدری برادران موجودہ جمہوریت کو ماننے کو تیار نہیں ہیں۔لیکن کیا کیجئے پاکستان میں کبھی مکمل جمہوریت آئی ہی نہیں۔عوام اقتدار کے ایوان میں براجمان حکمرانوں سے توقع لگائے بیٹھے ہوتے ہیں ،مگر اصل فیصلے کہیں اور کئے جارہے ہوتے ہیںاور ہم صرف سیاستدانوں پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ملک میں ہمیشہ ہائبرڈ جمہوریت نافذ رہی ہے۔
گزشتہ سال کے اختتام پر معروف بین الاقوامی میگزین The Economistکے تحقیقاتی یونٹ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں دنیا کی تمام حکومتوں کو چار اقسام میں تقسیم کیا گیا تھا۔ جن میں مکمل جمہوری( Full Democracy) ، تقریباً جمہوری (Democracy Flawed ) نیم جمہوری ( Democracy Hybrid ) اور آمریت( Authoritarian) ۔تحقیقاتی رپورٹ کی تقسیم انتخابات کے شفاف انعقاد ، شہریوں کے حقوق، میڈیا کی آزادی ، رائے عامہ کے اظہار کی آزادی ، حکومتی رٹ کی عملداری، سیاسی استحکام ،اور کرپشن سے پاک ماحول کی بنیادوں پر کی گئی ہے۔ رپورٹ میں 27ملکوں کو مکمل جمہور ی قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک بھی مسلمان ملک نہیں اور دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملک اسی فہرست میں آتے ہیں۔ یورپ کے زیادہ تر ملک اس فہرست میں شامل ہیں۔ 52 ممالک کو تقریباً جمہوری قرار دیا گیا ہے۔ ان میں صرف دو ملک مسلمان ہیں۔ ایک ملائیشیا اور دوسرا افریقی ملک مالی۔ ملائیشیا تیزی سے ترقی کرتا ہوا مسلمان ملک ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی61 % ہے۔ دوسرا ملک’’ مالی ‘‘ جس کو US Aid نے خطے کا سب سے مستحکم اور ترقی پذیر ملک قرار دیا ہے۔ نیم جمہوری ملکوں کی تعداد 31 ہے۔ پاکستان سمیت اس فہرست میں مسلم ممالک کی تعداد صرف 11ہے۔ اور ان میں کوئی بھی ملک اس رفتار سے ترقی نہیں کر رہا جس رفتار سے ملائیشیا اور مالی ترقی کر رہے ہیں۔ آمریت 54 ممالک میں پائی جاتی ہے۔ اس میں مسلم ممالک کی تعداد 26ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ غیر مستحکم جمہوری حکومتوں میں مسلمان ممالک کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اور آمریت میں بھی مسلمان ملکوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کو تیسری کیٹیگری میں رکھنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ کہنے کو تو ملک میں جمہوریت ہوتی ہے لیکن کسی بھی دور میں جمہوریت کو یا تو چلنے نہیں دیا جاتا یا پھر اس قد ر بے بس کر دیا جاتا ہے کہ ایوان اقتدار کے باسی بے بسی کی تصویر بن جاتے ہیں۔آج بھی ملکی حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔آئے روز حکومت و اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ دار افراد 29جولائی,پھر 14اگست اور اب 30اگست کی تاریخ دے رہے ہیں۔یہ تینوں تاریخیں بھی زرداری دور حکومت کی تاریخوں کی طرح گزر جائیں گی۔مگر سوال یہ ہے کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ جمہوری قوتیں ہی جمہوریت کی مخالف ہوجاتی ہیں۔میاں نوازشریف کو عوام نے وزیراعظم چنا ہے وہ بادشاہ نہ بنیں۔آصف زردای کا بیان گزشتہ دنوں ہر حلقے میں ہی زیر بحث رہا۔میاں صاحب جناب آصف زرداری پر خاصا اعتماد کئے ہوئے تھے مگر تین ہفتے قبل ہی میں نے میاں صاحب سے کہا تھا کہ زرداری سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں کسی بھی وقت شطرنج کی سے چال چل کر آپ کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔گزشتہ ہفتے ندیم افضل چن کے افطار ڈنر میں سید یوسف رضا گیلانی سے لے کر چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری، قمر الزمان کائرہ،رضا ربانی سمیت تمام اعلی قیادت موجود تھی۔سینیٹر رضا ربانی سے میں نے کہا کہ جو کام پارٹی کے شریک چیئرمین ،سابق وزرائے اعظم نہیں کرسکے۔وہ کام ندیم افضل چن نے کردیا ہے۔ایک طویل عرصے بعد پیپلز پارٹی میں جان دکھائی دے رہی تھی۔
لگتا ہے آج پی پی کا پھر جنم ہورہا ہے۔پارٹی رہنماؤں میں جوش و جذبہ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ افطاری کے بعد پیپلز پارٹی کے ایک سینئر رہنما سے میں نے پوچھا کہ آصف زرداری کے حالیہ بیان سے کیا جمہوری روایات مسخ نہیں ہوں گی۔تو موصوف نے کہا کہ میاں صاحب وفاق و مرکز میں تو حکومت کریں ۔عوام نے انہیں مینڈیٹ دیا ہے لیکن اگر وہ ہمیں اعتماد میں لئے بغیر ایم کیو ایم کو سینے سے لگا کر سندھ میں داخل ہوں گے تو اس کا ردعمل تو دیکھنے کو ملے گا۔باقی آئی جی کی تعیناتی پر بھی اختلافات شدید ہوئے ہیں۔موصوف کی باتوں سے میں سارا معاملہ سمجھ گیا۔ زرداری صاحب نے جس مقصد کے لئے بیان دیا تھا ۔میر ی اطلاعات کے مطابق تو انہوں نے وہ مقصد حاصل کرلیا ہے۔ میاں نوازشریف بھی نہیں چاہیں گے کہ ایسے موقع پر زرداری صاحب اور ان کے درمیان اختلافات شدید ہوں۔حکومت اور فو ج کے درمیان تناؤ کی کیفیت میں بھی بلاشبہ کمی آئی ہے۔وزیراعظم و آرمی چیف کی یکے بعد دیگرے دو طویل ملاقاتیں جمہوریت کے لئے نیک شگون ہیں۔ عمران خان صاحب کا مارچ کر نا جمہوری حق ہے۔ مگر قانون کے دائر ےمیں رہ کر معاملات نمٹائے جائیں تو ملک کے لئے بہتر ہوگا۔ویسے جن دوستوں نے تحریک انصاف کو لانگ مارچ کا مشورہ دیا تھا اب انہی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مارچ ضرور کریں مگر اس مارچ سے ایک پتہ بھی نہیں ہلنا چاہئے۔عمران خان اب خاصے محتاط ہونگے۔یہ جمہوریت کی ہی خوبصورتی ہے کہ بلا خوف و خطر ہر شخص حکومت پر انگلی اٹھا رہا ہے۔ایسی تنقید سے ہی بہتری آتی ہے۔یہی روایات ہی بہتر قوم بناتی ہیں۔مگر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جمہوری روایات کے حامل ملک ہی اب دنیا میں قابل عزت اور قابل اعتبار سمجھے جاتے ہیں۔ اور یہ بھی طے ہے کہ دنیا کی جن قوموں نے ترقی کی ہے، وہاں جمہوری نظام ِ حکومت ہی رائج ہے۔
تازہ ترین