میں نہ حکومت کے خلاف لکھنا چاہتا ہوں اور نہ حکومت کے مخالف پارٹیوں اور اداروں کے خلاف۔ میں صرف چند حقائق اور چند تاریخیں دہرانا چاہتا ہوں باقی نتیجہ اور مطلب آپ خود نکالیں۔ عمران خان نے 14اگست کی تاریخ دی ہے۔ 4اگست تک عیدالفطر کی چھٹیاں ہوں گی اور نہ وزیر اعظم ملک میں ہوں گے نہ کوئی اور بڑے لیڈر ۔ زرداری صاحب تو ویسے ہی ملک سے باہر رہتے ہیں اور اپنی مال و متاع کی اطلاع رکھنے پاکستان آتے ہیں اور ایک آدھ بیان داغ کر غائب ہو جاتے ہیں۔ خود عمران خان عید سے پہلے لندن کے دو دورے کر چکے ہوں گے۔ 4اگست تک ملک اور سیاست واپس آئے گی اور پھر 10دن بعد لانگ مارچ، آزادی مارچ یا یوم آزادی ہو گا۔ اس دوران ضرب عضب بھی چل رہا ہو گا اور فوجی قربانی بھی پیش کر رہے ہوں گے اور دہشت گردوں کا صفایا بھی کر رہے ہوں گے۔ ساتھ ہی سنا ہے ان سارے معاملات پر بحث کرنے کے لئے فوجی کمانڈروں کا اجلاس بھی عید کے فوراً بعد ہو گا اور ضرب عضب کے علاوہ 14اگست بھی زیر بحث ہو گا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ملکی اور غیر ملکی فوجی ادارے اور تجزیہ نگار ضرب عضب کو ایک انتہائی کامیاب آپریشن قرار دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب واضح کرنا ضروری ہے۔ آج سے لے کر سال کے آخر تک ناٹو اور امریکہ کے فوجی قافلے ملک سے بڑی تعداد میں گزریں گے اور یہ وقت امریکہ کی افغانستان سے واپسی کا ہو گا۔ ان قافلوں میں انتہائی حساس اسلحہ اور دیگر وہ سب سامان ہو گا جسے امریکہ چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا۔ تو ان قافلوں کی حفاظت کرنا ایک بڑا کارِ دارد ہو گا اور ضرب عضب کے بعد پاکستانی فوج پر اعتماد اور بھروسہ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ یعنی امریکہ چاہے گا کہ اس کا اسلحہ باقی ساز و سامان بغیر کسی دہشت گردی کے پشاور سے کراچی کی بندرگاہ پہنچ جائے اور وہاں سے بحری جہازوں میں امریکہ کا یا کسی اور جگہ کا سفر طے کرے۔ تو صرف پاکستانی فوج ہی یہ گارنٹی دے سکتی ہے تو بجائے پختونخوا یا پنجاب یا سندھ کی سیاسی حکومتوں کے امریکہ چاہے گا کہ فوج کنٹرول میں ہو اور کسی گڑبڑ کے بغیر وہ واپس چلا جائے۔ یہ تو ایک پہلو ہوا۔ دوسرا اہم پہلو ہے اکتوبر میں فوج کی قیادت میں تبدیلیاں جب 4یا5سب سے سینئر جنرل ریٹائر ہو کر گھر جائیں گے اور نئے لوگ ترقی پا کر قیادت سنبھالیں گے ۔ اب کہنے والے کہتے ہیں کہ ایک ایسے وقت جب فوج نہ صرف ضرب عضب میں بلکہ امریکی واپسی کے عمل میں اور افغانستان میں نئی حکومت کی پالیسیوں کو سمجھنے میں مصروف ہو گی ایک نئی قیادت کا آنا یا لانا کیا اچھی حکمت عملی ہو گی۔ تو کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ کچھ مہینوں یا ایک سال کیلئے سینئر جرنیلوں کو مزید مہلت دینا یا Extensionدینا کوئی انہونی بات نہیں ہو گی اس لئے کہ جنرل شجاع پاشا اور جنرل کیانی کو مدت ملازمت میں توسیع آخر دی گئی تھی اور کسی نے شور نہیں مچایا تھا۔ جو دوسری بات کہی جا رہی ہے وہ زیادہ خطرناک ہے یعنی اگر کچھ جرنیل گھر چلے بھی گئے تو جو ان کی جگہ آئیں گے وہ زیادہ بڑے Hawksثابت ہوں گے یعنی اپنی چلانے والے۔ اس سے زیادہ ابھی لکھنا ٹھیک نہیں۔ تو اس صورتحال میں سارا کام اور ساری ذمہ داری تو فوج اور جرنیلوں کو ہی اٹھانی ہو گی تو برائے نام ایک سیاسی حکومت کو رکھنے کی ضرورت تو ہو گی لیکن کیا وہ حکومت کچھ کر سکے گی سوائے بدنامی کمانے کے۔ اب اس تناظر میں 14اگست کے مارچ اور حکمت عملی پر بھی غور کریں۔ اگر عمران خان مارچ کی تاریخ تک کسی تبدیلی کا اعلان نہیں کرتے اور کئی لاکھ لوگ اسلام آباد میں آ جاتے ہیں تو کیا وہ تحریر سکوائر بنا سکیں گے۔ اگر ایک یا دوسرے دن وہ تقریریں کر کے چلے جاتے ہیں تو حکومت کی صحت پر کیا اثر ہو گا ہاں اگر وہ دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور قادری صاحب بھی اپنی فوج لے کر آ گئے تو پھر یا تو انتخابات کے ڈبے کھلیں گے یا نئے انتخابات کی تاریخ دینی ہو گی۔ اس صورت میں نئے انتخابات تو کم از کم ایک سال سے پہلے نہیں ہو سکتے کیونکہ نئی مردم شماری ہونی ہے ، نئے حلقے بننے ہیں اور نئی ووٹر لسٹیں بنانی ہوں گی۔ یہ سب کام ایک سال سے پہلے اور شاید دو سال میں ممکن ہو تو دو سال تک نواز حکومت کو تو بیٹھنے نہیں دیا جا سکتا اسلئے ایک عبوری حکومت چاہئے ہو گی اور وہ جب آ گئی تو اس کا اپنا ایجنڈا ہو گا یعنی احتساب اور کڑا اصل احتساب۔ تو پھر یوں سمجھیں کہ چوروں کو تو بھاگنا ہو گا اور کون کتنی جلدی بھاگے گا یہ پہلے دن ہی نظر آ جائے گا۔ تو انتخاب تو دو سال کا پروگرام ہو گا اور یہ سکیم سب کو اچھی لگے گی یعنی امریکہ کو، ناٹو کو اور فوج کو بھی کیونکہ انہیں ایک ایسی حکومت چاہئے ہو گی جو ضرب عضب اور ناٹو کی واپسی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ اس دوران عوام کی خواہش کے مطابق اگر معنی خیز احتساب بھی ہو گیا تو سونے پر سہاگا۔ اس اعتبار سے 14اگست ایک اہم تاریخ ہے اور نہ صرف عمران خان اور ڈاکٹر قادری کے خود نواز شریف کے لئے بھی ایک زندگی اور موت کا سوال ہو گا۔ اب نواز شریف فوج سے تو اپنے تعلقات ٹھیک کرنے میں سنجیدہ ہیں مگر ابھی تک عمران خان اور قادری صاحب سے بات نہیں کر رہے۔ شاید جلدی شروع کر دیں۔ اسی دوران زرداری صاحب نے بھی ہوا کی خوشبو سونگھ لی ہے اور اب تیکھے بیان داغنا شروع کر دیئے ہیں مگر وہ تو خوش ہیں کہ ان کے پانچ سال پورے ہو گئے جو چائے پانی کا خرچہ تھا نکل آیا اور اب کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ حکومت اپنے مسائل میں گرفتار ہے اور کوئی چوری چکاری یا لوٹ مار کا حساب لینے والا نہیں مگر کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ اگر نئے انتخابات کے لئے عبوری حکومت بنا دی گئی تویہ دو بڑی جماعتوں کے سربراہان کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا باعث ہوگی ۔میری اطلاع کے مطابق کہیں نہ کہیں ایسی لسٹیں بن رہی ہیں اور یہ خاص خیال رکھا جائے گا کہ کوئی بڑا چور بھاگ نہ پائے اور اسی لئے وہ سیاستدان جو کافی کھل کر بولتے ہیں یعنی شیخ رشید صاحب یا ڈاکٹر قادری، وہ کہہ رہے ہیں کہ ملک کے اربوں کھربوں لوٹنے والے اب کی بار بچ نہیں سکیں گے۔ ان سب کہانیوں کے درمیان کچھ لائنیں ایک جغادری کالم نویس اور ان کے خیالات اور بدلتے ہوئے احوال پر بھی ہو جائیں۔ یہ صبح سویرے سویرے اپنی دکھ بھری کتھا لکھنے والے اب گالی گلوچ اور بدزبانی پر اتر آئے ہیں یعنی ایک کالم میں انہوں نے مجھے بلیک ڈاگ اور ایک محترم بزرگ صحافی کو متروک فلسفے کا دانشور کے القاب سے نوازا۔ آدھے سے زیادہ کالم اس بے بنیاد بات پر تھا کہ ہم دونوں نے کوئی ٹی وی چینل کھولا ہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ یو ٹیوب پر ایک مکالمے اور ٹی وی چینل میں کیا فرق ہوتا ہے۔ یہ جغادری آج کل دوبارہ شریف برادران کے گن گا رہے ہیں۔ پہلے زرداری کو خوب چوسا پھر خوب لتاڑا اور اب واپس میاں صاحب کی طرف رجوع ہے۔ مجھے بلیک ڈاگ پڑھ کر خوب ہنسی آئی کہ موصوف خود بلیک ڈاگ کے کارناموں کیلئے مشہور ہیں اور جس طرح جنرل ضیاء الحق کو زمبابوے میں انہوں نے شرمندہ کیا تھا وہ بلیک ڈاگ ہی کا کمال تھا۔ موصوف اتنی غلیظ زبان پر اتر آئے ہیں کہ سوچ رہا ہوں کہ اگر میں بلیک ڈاگ ہوں تو وہ خود کس گورے کی امت میں سے ہیں۔ جب وہ کسی کی چوری کی کہانی لکھتے ہیں تو مجھے ان کے گھر کے سامنے کھڑی مرسیڈیز گاڑیاں یاد آ جاتی ہیں جو ان کے مطابق جہیز میں آئیں ہیں۔ سوچ لیں زمبابوے کی کہانی اگلی قسط میں۔