پچھلے چند ہفتے سڈنی میں گزارنے کے تین بڑے فائدے یہ رہے کہ ایک توہمیں صبح دوپہر شام کام ہی کام کے اذیت ناک لائف سٹائل سے بریک ملی اور ہم نے اپنےاندر کے آزادمنش مسافر کو کچھ دیر کے لئے کھلا چھوڑ دیا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ شدیدٹھنڈے ٹھارموسم میں گیارہ گیارہ گھنٹے کا مختصر سا روزہ کسی تحفے سے کم نہیںتھا چنانچہ نزلہ،زکام اور کھانسی کے باوجودوہاںروزہ قضا کرنے کو دل ہی نہیں چاہا۔
تاہم آج وطن واپسی پر اخبارات دیکھے تو محسوس ہواکہ اس غیرحاضری کا اولین فائدہ تو کچھ اور ہی تھا۔ یہ جو ہم اپنے آپ کو ہلکا پھلکا، خوش و خرم اور ترو تازہ محسوس کررہے ہیں اس کی وجہ سڈنی کے سنہرے ساحلوں پر گزرنے والے فراغت کے لمحات بھی نہیں اور آسٹریلیا میں شادآباداپنے ہزاروں چاہنے والوں سے ملاقات بھی نہیں تو پھراس بے موسمی آسودگی کی بھلا اور کیا وجہ ہوسکتی ہے، ذراسوچئے!
دراصل پچھلے چندہفتے ہم نے پاکستانی سیاستدانوں کے تیزابی جملے نہیں پڑھے اور نفرتوں کی وہ خا ک نہیں پھانکی جو یہ حضرات یہاں چوبیس گھنٹے اڑاتے پائے جاتے ہیں۔ آج پہلے دن ہی اخبارات دیکھے تو بخدا ہیضہ ہوتے ہوتے بچا ہے۔ وہاں اخبار میں کچھ اس قسم کی خبریں پڑھنے کو ملتی تھیں۔
٭لبرل پارٹی نے لیبر اپوزیشن کوساتھ لے کر چلنے کی ٹھان لیا۔
٭گزشتہ حکومت کی اکثر پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں مگر اپنے منشور پرعملدرآمد لیبرپارٹی کا جمہوری حق تھا: ترجمان حکمران لبرل پارٹی
اب ذرا اِدھر کی بھی سنئے!
٭قوم پرویز الٰہی کی لوٹ مارکا خمیازہ بھگت رہی ہے: رانامشہود
٭میاںبرادران نے پنجاب کی بجلی گیس کا سودا کردیا: پرویز الٰہی
٭وزیراعلیٰ پنجاب وزیراعظم بننے کے لئے پنجاب کی بجلی اورگیس کا سودا کرچکے ہیں: ق لیگ
٭عمران خان غلط بیانی نہ کریں۔ نندی پورپلانٹ چل رہاہے: عابدشیرعلی
٭بجلی بحران کے خلاف مظاہرے، ہنگامے، لیسکودفاتر میں توڑ پھوڑ، باٹاپور میں ڈنڈا بردارفورس کا قیام
٭آئی ڈی پیز کا ساتھ دینے کے وقت عمران خان میچ دیکھنےچلے گئے: ن لیگ
٭عمران فسادی مارچ ترک کرکے پارلیمینٹ میں بات کریں: خواجہ سعدرفیق
٭انسانی سمگلنگ عروج پر، ایف آئی اے نے چپ سادھ لی
٭سنیٹرز کوبکائو مال کہنے پر کمیٹی کا عمران کو طلب کرنے کافیصلہ
٭پاکپتن میں اجتماعی زیادتی کا شکار لڑکی کنویں میں کود گئی
٭ضلع کچہری میں وکلاکا پٹواری پر تشدد
٭لانگ مارچ کسی صورت نہیں رکے گا: قادری
یقین کیجئے یہ سب کچھ پڑھ کر طبیعت اس قدر اوازار ہوئی ہے کہ ہمیں اب وہ پسینہ بھی یاد نہیں رہا جولوڈشیڈنگ کے سبب ہمارے ناک، کان و دیگرمقامات سے لگاتار بہتا چلاجارہاہے۔ کون لوگ ہیں یہ اورآخر کس ڈھیٹ مٹی سے بنے ہیں کہ انہیں سروں پر منڈلاتے بربادی کے سائے نظر ہی نہیں آتے۔اسرائیل کے خلاف بات کرتے ہوئے یہ احباب ہکلاتے ہیں مگر ایک دوسرے کے بارے میں لگاتار ہجوگوئی کرتے چلے جاتے ہیں۔
اپنے ملک میں جاری سیاسی ڈرامے کو ذرا غورسے دیکھیں تو بہت کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ وسائل انتہائی محدود ہیں۔ آدھے اداکار کھانےمیں اور آدھے شور مچانے میں مشغول ہیں۔ رائٹر اورڈائریکٹر دوربیٹھے اطمینان کے ساتھ اپنے اپنے مقاصد اور مفادات سمیٹ رہے ہیں۔ تماشائی بیچارے گرمی اور حبس کی کیفیت میں قمیص اتار کر سٹیج کے آس پاس احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ ہر نئے سین سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں مگرمایوس ہو کر پہلے تو شور مچاتے رہے ہیں اب کرسیاں توڑ رہے ہیں۔ انتہاپسند قوتیں ایک دوسرے کاگلا نہایت رغبت سے کاٹ رہی ہیں مگر اسرائیلی جارحیت، لاقانونیت، کرپشن اور ظلم کے خلاف سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔
اُدھر ڈرامے کا پروڈیوسر مندی کے اس شدید رجحان کو دیکھ کر کڑھتا چلاجارہا ہے۔ پچھلے پانچ سال کا فلاپ شو بھی اس کے سامنے ہے اور موجودہ شو کے بیڑے بھی غرق ہی نظر آتے ہیں۔ بیچارہ سوچتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہاہے؟ ان دونوں سے تو کئی درجے اچھا مشرف ڈرامہ تھا جس نے ملک کو ترقی کے راستے پر تو ڈال دیا تھا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پھر اسی قسم کا محدود جمہوری ڈرامہ تیار کیاجائے کہ جس سے یہ روز روز کی بک بک اور چخ چخ تو ختم ہو، ہیں جی؟
مگر پروڈیوسر بیچارے کی دو مجبوریاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا اپنا تیار کردہ حکومتی ڈرامہ ہوتاتو خاصا طویل المیعاد ہے مگر یہ ہر بار باکس آفس کا تو بیڑہ غرق کرتاہے البتہ چند اہم کردار ارب پتی ضرور ہو جاتے ہیں۔ کوئی ریلوے کی زمین بیچ کر تو کوئی بوگیوں اورانجنوں کا کمیشن۔ دوسری مجبوری یہ ہے کہ بیچارہ پروڈیوسر اس وقت خود بیشمار جھنجھٹوں میں پھنسا ہوا ہے۔ اسے نہ تو زمینی حالات اجازت دیتے ہیں کہ ذاتی پروڈکشن لے کر میدان میں اترے اور نہ ہی رائٹر اور ڈائریکٹر اسے اس حوالے سے من مانی کی اجازت دیتے ہیں۔ تاہم این آر او پروڈکشنز کے تحت پچھلے چندسالوں کے دوران’’انہی کے گھر میں ڈانگ‘‘ کا جو سلسلہ جاری ہے وہ نہ تو پروڈیوسر سے ہضم ہو رہا ہے اور نہ عوام سے۔ مگر افسوس کہ دونوں اس سلسلے میں وہ سب کچھ نہیں کرپا رہے جو انہیں کرنا چاہئے!
زرداری صاحب جو بائیڈن کی بغل میں گھسے اخباری صفحات پر نظرآ رہے ہیں جبکہ نوازشریف اپنےمعصوم اور حیران پریشان چہرے کے ساتھ شہزادہ مقرن کی طرف رحم طلب یا شاید جواب طلب نظروں سے دیکھتے دکھائی دیتے ہیں یہ سب کچھ صرف ایک دن کے اخبارات میں تھا جس نے ہمارے سفرسڈنی کے کڑاکےنکال دیئے ہیں۔ چنانچہ اگلے چند دن ہم اپنی توجہ حالیہ ڈرامے کی بجائے سڈنی کے سفرنامے پر ہی مرکوز کریں گے ورنہ روزے کے ساتھ یہ سب کچھ کم از کم ہماری برداشت سے تو باہر ہے۔.