• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیرت النبیؐ کی کتابوں میں ایک نوجوان کا واقعہ درج ہے جس نے سرور کائنات رحمت دوعالم ﷺ کے سامنے اپنے والد کے رویئے کی شکایت کی۔ حضورﷺ نے والدکوبلایا اور بیٹے کی شکایت بیان کی۔ باپ نے شکایت سنی، دریدہ نگاہوں سے بیٹے کو دیکھا، آنکھیںنمناک ہوئیں، آواز بھر ّائی اور زبان گنگ ہوگئی۔
پھر وہ سنبھلا، بچی کھچی طاقت و توانائی جمع کی اور افصح العربﷺ کے سامنے بیٹے سے جو کہا وہ شعری ادب کا انمول نمونہ ہے۔ اس قدر مدبر کہ رحمت عالم ﷺ کی آنکھیں فرطِ جذبات سے جل تھل ہوگئیں۔ ریش مبارک آنسوئوں سے تر اور آپؐ زار و قطار رونے لگے۔باپ نے جو کہا وہ صرف اس کی آپ بیتی نہ تھی ہر صاحب ِ اولاد کی ہڈبیتی ہے۔ اولاد کے لئے ماں باپ کی جبلی محبت، ریاضت اورقربانیوں کی داستان۔ باپ نےکہا۔
’’بیٹا! جب تو پیدا ہواتومیری خوشی دیدنی تھی۔ میں نے اپنےآپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھا۔ جیسے اپنی زندگی کا مقصد پالیا۔ اب میں نے اپنےلئے نہیں فقط تمہارے لئے جینے کا فیصلہ کیا۔ تمہیںہر حال میں خوش باش دیکھنا میری آرز و تھی اور تمہاراکھیلنا، کودنا، شرارتیں کرنا، بگڑنا، سنورنا، اٹھنا، بیٹھنا، سونا جاگنا،آنکھ کا نور، دل کا سرور۔ میں نےاپنی نیندیں تمہاری نیند پر، خوشیاں تمہاری خوشیوںپر اور خواہشات تمہاری خواہشات پرقربان کردیں۔ تم سوتے میں جاگتا، تم کھلکھلاتے میں قہقہے لگاتا، تمہاری آنکھوں میں آنسودیکھ کر میری جان پر بن آتی۔ میں اندیشوں، وسوسوںسے نڈھال ہوجاتا۔ تمہیں اچھا کھلانے پلانے، دنیا جہان کی نعمتیں بہم پہنچانے کے لئےمیں نے پیٹ پر پتھر باندھ لئے۔ خود بھوکارہا تمہاری بھوک مٹائی۔
تم نے اپنے پائوں پر چلنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ پوری کائنات تمہارے ہم سفر ہے۔ تم رکے تو جیسے کائنات کا نظام رک گیا۔ خود پتھروں پر چلا مگر تمہارے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے۔ تم نے رات کو دن کہا، سیاہ کو سفید ، میں نے آنکھیں بند کرکے تائید کی، تم مشرق کو چلے میں نے مشرق کی طرف رخت سفر باندھ لیا، تم نےتارے توڑنے کو کہا میں نے کمر ہمت کس لی اور ناممکن کو ممکن بنانے پرتل گیا۔ تمہارے لئے ہر رشتہ، ناطہ، تعلق اور رابطہ توڑ دیا، تمہاری پسند کو اپنی پسند بنا لیااور ناپسندکو ناپسند۔ تمہاری ڈانٹ کو معصومیت اور بدتمیزی کو ہمیشہ طفلانہ اندازِ محبت سمجھا۔
تم جوان ہوتے گئےمیں بوڑھا ہوتاگیا۔ تمہاری اٹھان، مجھے ڈھلوان میں بدلتی رہی۔ تم سروقدہوگئے میں ٹیڑھی کمان۔ تم مضبوط ہوئے میں لاغر وکمزور، کبھی تمہیں احساس نہ ہونےدیا کہ تمہارے فولادی جسم اور مضبوط ہڈیوںکے لئے میری ہڈیاں کھاد بنی ہیں۔ مگر میں نے کبھی تم سے یا اپنے آپ سے گلہ نہیںکیا۔ حرف ِ شکایت زبان پر نہیں لایا۔ امید یہ تھی کہ جس طرح بچپن میں تم میری انگلی پکڑ کر چلتے پھرتے، اتراتے تھے اب میں تمہاری انگلی پکڑ کر باقی ماندہ زندگی کا کٹھن سفر طے کروں گا۔ جس طرح میں اپنی ضرورتیں، خواہشیں قربان کرکے تمہاری ضرورتیں پوری کرتاتھا تم میری ضرورتیں پوری کرو گے۔ اپنا بچپن یاد کرکے میرے منہ میں نوالہ ڈالوگے، میرا منہ اور ناک صاف کرو گے اور میری کمزور بچے کی طرح خبرگیری کرو گے۔ تمہاری کڑیل جوانی میرے بڑھاپےکا سہارا ہوگی اور تمہاری کامیابی و کامرانی، ترقی وخوشحالی میرے لئے اسی طرح باعث اطمینان و آسودگی جس طرح تمہارا پروان چڑھنا میری سرشاری کاباعث رہا۔ مگر اے بیٹے! تم نے کیا کیا؟ ایک رات کا احسان بھی یاد نہ رکھا۔‘‘
ہر ماں باپ جو زیادہ غریب ہو یا امیر، کمزور ہو یا طاقتور اپنی اولاد کی پیدائش و پرورش کے عرصے میں انہی مراحل سے گزرتا ہے۔ اپنی زندگی کاپل پل لمحہ اولاد کی خدمت گزاری ، نازبرداری پر قربان کردیتا ہے ۔ اولادکے لئے بسااوقات انسان اپنے رب، اس کے احکامات کو بھول جاتا ہے۔ تعلیمات ِ رسولﷺ کو پس پشت ڈال دیتاہے، خویش، اقربا، ضرورت مندوں، زیرکفالت افراد و خاندانوں، ضرورت مندوں کے حقوق، معاشرتی رسم و رواج، مذہبی فرائض فراموش کردیتاہے اور جائز و ناجائز، حق و ناحق اور حلال و حرام کی تمیز تک روا نہیں رکھتا،محبت انسان کو اندھا اور بہراکردیتی ہے مگر اولاد کو اللہ تعالیٰ نے مال کی طرح آزمائش قرار دیا ہے اور یہ اچھے بھلے انسان کو صرف اندھا، بہرا نہیں گونگا بھی بنا دیتی ہے۔
مگر یہی اولادسوائے ان خوش نصیبوں کے جن کی پرورش رزق حلال سے ہوئی۔ تربیت حقوق و فرائض کے شعور سے آشنا ماحول میں اور ساخت پر داخت اعتدال و توازن کے ساتھ جوان ہو کر کیا کیا قیامتیں نہیں ڈھائیں۔ ماں باپ کی کمزوری، کوتاہی، ناکامی کا سرعام تذکرہ، تنگ دستی کے سبب خواہش پوری نہ کرنے کی شکایت اور اپنے دیگررشتہ داروں، وفاداروں اور حقداروں کو اپنی جائز کمائی سے نوازنےکا طعنہ، بڑھاپے میں سنکی ہونے اور ہر بات میں ٹانگ اڑانے پر غصہ اور اپنے ناکام تجربات دہرانے کی عادت پر اظہاربرہمی، جائیداد ہتھیانے کے لئے قتل پر اتر آنا اورساس بہو کے جھگڑوں پر انہیں اولڈہوم داخل کرنے سے گریز نہیں رکھنا۔
اولادکے لئےہر حد کو تجاوز کرنے والے والدین یہ تک بھول جاتے ہیں کہ یہ کسی نیکی، بھلائی اور قربانی کو بھی معلوم نہیں یاد رکھے گی یا نہیں۔ نماز جنازہ میں شریک ہوگی، اپنے ہاتھوں سے لحد میں بھی اتارے گی اور فاتحہ پڑھتے، بعد از تدفین و قرآن خوانی کسی غریب کو کھانا بھی کھلائےگی یا اپنے معمولات میں مگن سر سے بوجھ اترنےپر کلمہ شکر اداکرے گی۔ خوش نصیب ہیں وہ ماں باپ جو اولاد کو ہمیشہ آزمائش سمجھ کر اس پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اولاد کی محبت میں دیوانے ہو کر کسی کی حق تلفی نہیں کرتے ان کے سکھ چین کے لئے کسی دوسرے کا سکھ چین برباد نہیں کرتے اور خدا کو بھولتے ہیں نہ خلق خدا کے حقوق کو فراموش کرکے اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں۔
خوش قسمت اور کامران ہے وہ اولاد جو توازن و اعتدال کے راستے پر گامزن اپنے والدین کی اچھی تربیت کے طفیل حقوق و فرائض سے آشنا، ماں باپ کی خدمتگار و اطاعت گزار ہے اور معاشرے کی مفیدو بہتر انسان۔اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں بالخصوص ماں باپ کے شکرگزار، ہر دم دعاگو ’’اے میرے رب (میرے ماں باپ پر) اس طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحمدلی کا سلوک کیااور میری پرروش کی (رب ارحم ھما کما ربٰینی صغیرا)
حضور اکرمﷺنےبوڑھے او ر دکھی باپ کا فسانہ غم سنا اور باپ سے شاکی بیٹے کو حکم دیا کہ وہ ان کی نظروں سے دور ہو جائے۔
تازہ ترین