• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آبادمیں ہونے والی سفارتی تقاریب سےلے کرمحفلوں،ریستورانوں حجروں اور ڈرائنگ روموں سے ملک بھر کےگلی محلوں کے چائے خانوں تک۔ موضوع بحث یہی ہے کہ چودہ اگست کوکیاہوگا؟ تحریک انصاف کے قائدین مُصرہیں کہ14 اگست کوہرقیمت پر اسلام آباد جائیں گے۔لیکن کس قیمت پر؟اوراگرجشن آزادی کے موقع پروہ ہوا۔جو نہیں ہونا چاہئے توپھر کس کس کوکیاکیاقیمت اداکرناپڑے گی یہ ابھی شاید کسی کومعلوم نہیں۔اورشاید اندازہ بھی نہیں۔
خواہشات اورامکانات واقعہ ہونے سے قبل تک ہوتےہیں..... واقعہ ہوجائے توسب کچھ بدل جاتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف ہرآنے والے دن کے ساتھ حکومت پردباؤ ڈال رہی ہےاورقومی وصوبائی اسمبلیوں سے استعفے جوکسی بھی سیاسی جماعت کےلئے مستقبل میں ’’کامیابی کی ضمانت‘‘ کے پیش نظر ہی آخری حربے کے طورپر استعمال کئے جاتے ہیں تحریک انصاف نےاپنا وہ آپشن بھی استعمال کرنے کے بیان دینے شروع کردئیے ہیں لیکن خود تحریک انصاف میں بعض ترجمان نمالوگ ’’آف دی ریکارڈ‘‘ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں نہ تو صوبائی اسمبلیاں توڑی جائیں گی اورنہ ہی ارکان استعفیٰ دیں گے۔ یہ بات زیادہ قرین ازقیاس لگتی ہے....کیونکہ کےپی کے میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایسے ارکان کی تعداد بہت زیادہ ہے جنھیں خود اس بات پریقین ہے کہ وہ ’’پہلی اورآخری‘‘ مرتبہ رکن اسمبلی بنے ہیں جبکہ قومی اسمبلی کے ارکان کے بار ے میں بھی دعویٰ کیاجارہا ہے کہ ان کے استعفے 13اگست تک قومی اسمبلی کے اسپیکر کے حوالے کردئیے جائیں گے۔ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی اپنےکارڈز اوپن کر دیئے ہیں جبکہ چوہدری برادران بھی 14اگست کے اجتماع کواپنی سیاسی زندگی کے ’’آخری معرکے‘‘ کے طورپر لڑنے کے انداز میں بیانات دے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اپنی جماعت کی ترجمانی کافریضہ انجام دیتےہوئے حکومت کی مخالفت میں بڑے ’’ذمہ دارانہ‘‘ بیانات دے رہے ہیںتاہم ان کایہ بھی کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے رواںاجلاس میںوہ فرینڈلی اپوزیشن کاتاثر ختم کردیں گے جبکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے تویہ مشورہ دےکراپنے تیئں بات ہی ختم کردی ہے کہ ’’محاذ آرائی سے اجتناب برتنے کےلئے نواز شریف آگے بڑھیں اوراپنی جماعت سے کسی اورکووزیراعظم بنادیں‘‘ (کیاایم کیوایم کے قائد میاں نواز شریف کے اقتدار کے ماضی سےبخوبی واقف نہیں؟)
دوسری طرف حکومت کے بیان باز وزراء خم ٹھونک کرمیدان میں موجود ہیں اورمخالفین کی ہرچال اوراقدام پرجوابی کارروائی میںتاخیرنہیںکرتے۔اس تمام صورتحال میں دس دن سعودی عرب میں قیام کے بعد وزیراعظم نواز شریف بھی حکومتی امور سے قدرے ہٹ کراب ملکی سیاست میںفعال اورسرگرم ہوچکے ہیں اورانہوں نے بھی موجودہ سیاسی صورتحال میں اپنے رفقاء سے مشاورتی سیشن شروع کردیئے ہیں،جوصورتحال پیداہورہی ہے اس میں فریقین ایک دوسرے کودباؤ میں لانے کےنفسیاتی حربے بھی استعمال کرتے ہیں اور (DECEPTION.PLAN) کی حکمت عملی بھی استعمال ہوتی ہے جوکےکم از کم 14اگست تک جاری رہے گی اورہوسکتاہے کہ14اگست سے پہلے زیادہ اہم یہ ہوجائے کہ 14اگست تک کیاہوگا.....کیونکہ جشن آزادی کے موقعہ پراپوزیشن جوخاکہ بنارہی اورحکومت اس سے نمٹنے کےلئے جومنظر دِکھارہی ہے (بعض وزراءکے بیانات کی روشنی میں) اس میں زیادہ اہم چودہ اگست سے پہلے کی صورت حال دِکھائی دیتی ہے۔اس دوران اگر حکومت عمران خان سے معاملات طے کرلیتی ہے تو غٰیر یقینی صورتحال خاصی حد تک ختم ہوسکتی ہے کیونکہ موجودہ پارلیمانی،جمہوری نظام میں ان کی جماعت ہی ہے جوسب سے زیادہ سرگرم ہے اورحیثیت اوراہمیت رکھتی ہے..... باقی چوہدری،قادری،شیخ اوران جیسے کچھ دوسرے سب سیاسی شورشرابہ ہیں۔پیپلزپارٹی اورایم کیوایم موجودہ حکومت کی آئینی مدت پوری کرنے کیلئے حکومت کاساتھ دینےپرتیارہیں۔حکومتی زُعما الزام لگاتے ہیں کہ سب کچھ طے شدہ ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے۔اگریہ تسلیم بھی کرلیا جائے تو پھر اس ایجنڈے کی روک تھام اور اسے ناکام بنانے کیلئے حکومت نے کیا کیا؟
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری تو بیگانے تھے حکومت نے تو ’’ناراض اپنوںکو‘‘بھی پہلے سے زیادہ دور کر دیاہے۔ چوہدری اور میاں برادران کے درمیان لاکھ اختلافات اور رنجشیں سہی لیکن چوہدری بدترین مخالفین کے ساتھ بھی بدترین کشیدہ صورتحال میں کوئی نہ کوئی کھڑکی، دروازہ یا روشندان کھلا رکھتے ہیں۔ ان کے طرز سیاست سے اختلاف اپنی جگہ..... لیکن اختلاف میں وضع داری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا بھی ان کی سیاست کا لازمی حصہ ہے۔واقعات اور مثالیںموجود ہیں کہ چوہدری برادران نے مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف سے تجدید عہد کی بڑی کوششیں کیں۔ مسلم لیگ کو ایک کرنے کیلئے ان کی تمام شرائط بھی تسلیم کرنے کا عندیہ دیا لیکن پھرناکامی کی صورت میں..... ان کی مایوسی غصے میں اور غصہ سیاسی انتقام میں تبدیل ہو گیا۔ انہیں نظر آ گیا کہ اگر پانچ سال یہی حکومت رہی تو پھر ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہے۔ چنانچہ اب وہ 14 اگست کو اسلام آباد میں اکٹھے ہونے والوں کی میزبانی بھی کر رہے ہیں اور انہیں وسائل کی طاقت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ شیخ رشید مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر تنہا رہ گئے تھے ۔
انہوں نے وزیراعظم نوازشریف کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے لاکھ جتن کئے لیکن خود وزیراعظم بھی چاہنے کے باوجود شیخ رشید کو قریب نہ لاسکے۔نتیجہ سب کے سامنے ہے ان کیلئے تمام راستے بند ہوگئے تو انہوں نے ماضی میں جو محبت اور حمایت میاں نواز شریف کی وجہ سے حاصل کی تھی ان کے مخالفین سے کہیں زیادہ توجہ ان کی حکومت سے نفرت کا اظہار کر کے حاصل کی اور اپنی سیاسی بقا کیلئے میاں نوازشریف کے مخالفین کے آلہ کار بن گئےپھرانہوں نے ٹی وی ٹاک شوز میں یہ بات ثابت کر دی کہ ’’گوئیبلزصرف حکومت میں ہی نہیں بلکہ اپوزیشن میں بھی ہوتے ہیں‘‘ ڈاکٹر طاہر القادری کا معاملہ مختلف ہے لیکن شیخ الاسلام کا شمار بھی کبھی قریب ترین رفقا میں ہوتا تھا۔ مخدوم جاوید ہاشمی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی نشست پر کھڑے ہو کر وزیر اعظم نوازشریف کو ببانگ دُہل اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم کے گرد ان کے ’’مخصوص رفقا‘‘ کا جو مضبوط محاصرہ ہے وہ ان کو راستہ دینے کیلئے تیار نہیں۔
جن لوگوں کا حافظہ کمزور نہیں انہیں ضرور یاد ہو گا کہ حکومت بننے کے کچھ عرصے بعد ہی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بڑے اعتمادکےساتھ یہ کہا تھا کہ’’میں ایک سے ڈیڑھ سال تک اپنی حکومت کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لوں گا اور یہ بھی دیکھوں گا کہ خود میں نے عوام کیلئے کیا ڈلیور کیا اگر میں مطمئن نہ ہوا تو پھر میں حکومت سے لاتعلقی اختیارکر لوں گا۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ حکومت چھوڑنے کا مطلب مسلم لیگ ن سے علیحدگی ہرگز نہیں‘‘پھریہی بات وہ الیکشن میں کامیابی کے بعد اپنے حلقہ نیابت میں کئے جانے والے جلسوں اور دیگر اجتماعات میں دہراتے رہے۔ اب جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو قائم ہوئےڈیڑھ سال کا عرصہ ہونے کو ہے تو چند ہفتے قبل ان کی شدید ناراضگی اور حکومت سے برائےنام وابستگی کے تناظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چوہدری نثار اپنے کہے پر عمل کر رہے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ رائے ونڈ میں ہونے والی ملاقات اور وزیر اعظم نوازشریف سے خوشگوار جملوں کے تبادلے کے بعد چوہدری نثار کی ناراضگی ختم ہو گئی ہے تو وہ یقیناً چوہدری نثار علی خان کو جانتے ضرور ہوں گے۔ لیکن سمجھتے ہر گز نہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے اس کھلی حقیقت کا اظہار دبے لفظوں میں کیا تھا کہ بعض وزراء ان کے بارے میں بُغض اور حاسدانہ طرز عمل رکھتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کے تحفظات اور ناراضگی کی فہرست خاصی طویل ہے تجزیہ نگاروں اور نامہ نگاروں نے معروضی حالات وواقعات کو سامنے رکھتے ہوئے قیاس آرائیاں کیں اور قیافے لگائے اور اُنہی کو چوہدری صاحب کی ناراضگی کا سبب قرار دیا۔ اگر تھوڑی دیر کیلئے انہیں تسلیم بھی کر لیا جائے تو رائے ونڈ میں ہونے والی ملاقات کے بعد وزیراعظم نوازشریف کے اطراف میں موجود لوگوں میں کون سی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ کابینہ میں کونسا رَدُوبَدل ہوا ہے۔کون سی پالیسیاں تبدیل ہوئی ہیں اور پھر ایک سال تک چوہدری نثار علی خان بحیثیت وزیر داخلہ جس انداز میں اپنے منصب کے تقاضوں کو پورا کر رہے تھے اور جس طرح سرگرم اور فعال نظر آتے تھے...... آج جب موجودہ حالات میں ان سے زیادہ متحرک ہونے کی ضرورت ہے تووہ اتنے ہی LOW PROFILE میں کیوں ہیں..... اس کے علاوہ بھی کئی واقعات اور اشارے اس بات کی غمازی کرتے نظر آ رہے ہیں کہ وہ بحیثیت وزیر داخلہ خاصے غیر مطمئن ہیں اور امکان یہ بھی ہے کہ وہ رواں ماہ کے آخری دنوں میں ہی کچھ دنوں آرام کیلئے بیرون ملک جا سکتے ہیں۔
وزیراعظم کو اس ساری صورتحال کا تجزیہ بھی ضرور کرنا چاہئے کہ چند کو چھوڑ کر ان کی کابینہ کے ارکان بھی حالات و معاملات سے خاصے دل گرفتہ ہیں۔ کارکن ناراض ہیں۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان جنھوں نے حکومت اور مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی تھی اس حد تک غصے میں ہیں کہ سب ’’موقع کی تلاش‘‘ میں ہیں۔
تازہ ترین