ہم دنیا کی صورتحال اورآنے والے حالات سے بے نیاز ہوکرعید الفطر منانے کے بعداب احتجاج، دھرنے اور انقلاب کے داخلی پروگراموں اور حکومت کی جوابی دھمکیوں کے کام میں پورے انہماک سے مصروف ہوگئے ہیں۔ نہ تو اس المناک حقیقت کی پروا ہے کہ فلسطین کی غزہ کی پٹی کے کئی لاکھ مسلمانوں کے ساتھ رمضان اور عید الفطر کے محترم ایام میں کیا سلوک ہوا جواب تک جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے ضابطوں کی پروا کئے بغیر ان نہتے شہریوں کے مکانوں اورمساجد کوبے دریغ اور مسلسل بمباری کرکے تباہ کردیا گیا۔یہ مناظر اتنے ہولناک، دلدوزہیں کہ میکسیکو، جنوبی امریکہ کے ممالک، اوردیگر غیرمسلم ممالک میں بھی انسانی ضمیر رکھنے والے اسرائیل کی اس جارحیت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ جو ممالک اسرائیل کو تسلیم اور اس کی حمایت کرتے ہیں وہاں بھی احتجاج اور اسرائیل کی مذمت کی جارہی ہے کہ کینیڈا میں راسخ العقیدہ یہودیوں نے بھی اسرائیل کے خلاف مذمتی احتجاج کیا ہے۔ لیکن 50سے زائد مسلمان ممالک کے حکمران سہمے بیٹھے ہیں ۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اپنی بے عملی کے باعث اب اوہ ! آئی سی کے نام سے پکاری جاسکتی ہے۔تقریباً دو ہزار فلسطینی موت کا شکار 9500زخمی ہو چکے ہیں اور ان کی معیشت بھی تباہ ہوچکی ہے۔اقوام متحدہ کے تمام جنگی و اخلاقی ضابطے کھلے بندوں توڑے جارہے ہیں مگر مسلمان حکمراں خاموش ہیں بلکہ بعض مسلم ملکوں کی حکومتیں تو اسرائیل سے تعاون کررہی ہیں۔ شاید ہم نےنماز عید کے بعد فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کیلئے آزادی اور امن کی اجتماعی دعا مانگ کر اپنا انسانی اور اسلامی فرض پورا کر ڈالا ہے۔ البتہ ایک حکمراں نے اپنے بیان میں فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری کو جنگی جرائم قرار دیا ہے سوال یہ اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کاسدباب کون کرے گا؟ کس میں اتنی ہمت اور جرأت ہے؟ اس جنگ میں تو 80فیصد ہتھیار برطانوی ساخت کے استعمال ہورہے ہیں اور اس جارحیت پر امریکہ اسرائیل کی مکمل حمایت کررہا ہے۔ سوویت یونین ٹوٹ کر روس کی شکل اختیار کرچکا ہے اور موجودہ روس یوکرین کے بحران کے بعد اب خود اپنی جنگ ہار رہا ہے۔ اپنی پیشرو عالمی تنظیم لیگ آف نیشنز کی طرح اقوام متحدہ بھی نہ صرف بڑی طاقتوں کی ضرورت اور مفادات کے لئے کام کررہی ہے اورکمزور اقوام مظلوم ہوکر بھی ظالم،جارح،دہشت گرد اورسزا و تباہی کی مستحق قرار پاتی ہیں حتیٰ کہ اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل بھی فلسطین میں اقوام متحدہ کے دو اسکولوں میں پناہ لینے والے بچوں، عورتوں اور مردوں پر بھی اسرائیلی بمباری کو صرف مجرمانہ اور اخلاقیات سے عاری قرار دے کر صرف ایک بیان جاری کرنے پر اکتفا کرتا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق فلسطینیوں کے خلاف جنگ کو بند کرے گا۔ اسرائیل کو دفاع کرنے کا حق ہے لیکن مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں آباد فلسطینیوں کے حق زندگی اور حق دفاع کی کوئی گنجائش نہیں۔ بلکہ امریکہ نے 225ملین ڈالرکی ہنگامی امداد اسرائیل کو فراہم کردی ہے۔ اقوام متحدہ کے عملے کے 9افراد بھی مارے جاچکے مگر کسی کو پروا نہیں۔ اگر یہ تمام اقدامات کوئی اور ملک کرتا تواس کے خلاف اب تک عالمی پابندیاں عائد ہوچکی ہوتیںاور اسکے خلاف اب تک عالمی سطح پر فوج اور طاقت کا استعمال امن عالم کی ضرورت کے نام پر ہوچکا ہوتا۔ جی ہاں! غزہ پٹی میں جو مظالم نہتے فلسطینیوں پر ڈھائے جارہے ہیں۔ یہ عالمی ضابطوں،اقوام متحدہ کے منشور کے خلاف اور جنگی جرائم ہیں مگر عملاً کس حکمراں اور حکومت میں یہ ہمت ہے کہ وہ جنگی جرائم کا یہ مقدمہ عالمی عدالت میں پیش کرسکے یا اقوام متحدہ ایسا کوئی ایکشن کرسکے؟ رہی بات مسلم حکمرانوں کی تو بطور نمونہ خود اپنے پیارے پاکستان جہاں کے عوام کے جذبات فلسطینیوں کے لئے انتہائی مخلصانہ اور برادرانہ ہیں اس پر 9سال تک آمرانہ حکومت کرنے والے جنرل (ر) پرویز مشرف کے وہ خیالات آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں جن اظہار کا انہوں نے براہ راست مجھ سے 2003 میں واشنگٹن میں کیا۔ وہ امریکہ صدر جارج بش سے کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات اور مذاکرات کرکے بڑے خوش لوٹے تھے پاکستان کے لئے امداد اعلان کیا گیا تھا ۔واشنگٹن کا ’’فور سیزن ہوٹل‘‘ پاکستانی وفد کی گہما گہمی اور سیکرٹ سروس کی چوکسی کے مناظر پیش کررہا تھا۔ جنرل (ر) مشرف کے ساتھ ’’جیو/ جنگ‘‘ کے لئے میرا یہ پہلا خصوصی انٹرویو طے تو تھا مگر دوپہر سے سہ پہر اور پھر شام تک ملتوی کیا جاتا رہا ۔ بہرحال اس ماحول اور تناظر میں رات آٹھ بجے کے بعد جب میرے انٹرویو کا مرحلہ آیا تو جنرل پرویز مشرف نے دورہ، پاک ۔ امریکہ تعلقات کی تازہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے بڑے بااعتماد لہجے میں کہا کہ ’’ہمیں اپنا مفاد دیکھنا چاہئے۔ ہم فلسطینیوں سے بھی زیادہ فلسطینی بنتے ہیں۔ ہمیں فلسطینیوں نے کیا دیا ہے؟ ان کی وجہ سے ہم اسرائیل اور امریکہ اور اس کے حامیوں کی ناراضگی مول لیتے ہیں‘‘۔ آنے والے وقت میں جنرل مشرف کے امریکی بااثر یہودی تنظیموں سے رابطے اور اسلام آباد کے خاموش دوروں اور نیویارک میں ایک یہودی تنظیم کے ڈنر سے جنرل مشرف کے خطاب نے بالکل واضح کردیا کہ وہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتے تھے۔ اس عملی مثال بلکہ حقیقت کو آپ دیگر مسلمان حکمرانوں کے خاموش روئیے، ضرورت اقتدار پر بھی لاگو کرسکتے ہیں ورنہ ان ممالک کے عوام تو واضح طور پر فلسطینیوں کے حق میں رائے رکھتے اور دعائیں کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ یاد ررکھئے کہ جس جارحانہ کام کا آغاز غزہ کی پٹی سے ہوا ہے اور جس تباہی کا شکار عراق، شام اور لیبیا ہورہے ہیں وہ سفر کرکے جنوب مغربی ایشیا تک آنے والا ہے۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان واقع ممالک کے حکمران اور سیاست دان یاد رکھیں۔ جب ہر چیز آپ کے قابو سے باہر نکل جائے گی اور غیروں کا عالمی ایجنڈا اور آپ کی قومی شناخت کے دشمن اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا چکے ہوں گے تو پھر نظریہ سازش اور مخالفین کو برا بھلا کہہ کر ہم اپنے دھرنے اور مبہم انقلاب کے نعروں کو غلط وقت پر لگائے جانے والے نعروں کے زخم اسی طرح چاٹتے نظر آئیں گے جس طرح مصر کے اتحریر اسکوائر میں جمع ہوکر مصر میں انقلاب لانے والے چند دنوں کی حکومت کے بعد اب اپنی ہی فوج کے سربراہ کے ہاتھوں نہ صرف زنداں میں بند ہیں بلکہ مصری فوج کا کمانڈر انچیف اب سربراہ مملکت کے طور پر غزہ کے مسلمانوں کے بارے میں اسرائیلی خواہشات کا تابع نظر آتا ہے۔ مجھے تو غزہ کی پٹی سے لے کر افغانستان اور پاکستان تک برج الٹتے نظر آرہے ہیں۔ خدا کرے ایسا نہ ہو۔
رہی پاکستانی قائدین کی بات تو داخلی محاذ پر انقلاب اور احتجاج کے اعلانات کرنے والے لیڈران اور حکومت سبھی اپنے پڑوس میں بدلتی ہوئی رفتار زمانہ سے بھی بے خبر رہ کر ایک دوسرے کو ناکام بنانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں لاواپک رہا ہے اُدھر عیدا لفطر کی تعطیلات کے دوران 30جولائی تا یکم اگست امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ مکمل کرکے واپس گئے ہیں۔ وہی نریندر مودی جن پرکئی سال تک امریکہ نے اپنے وزٹ ویزا دینے پر پابندی عائد کئے رکھی اور جن کی پارٹی بی جے پی کی خفیہ نگرانی بھی کی اب امریکہ اسی نریندر مودی کی حکومت سے مذاکرات کو تاریخی موقع اور اشتراک قرار دے رہا ہے۔ اگلے ماہ اسی نریندر مودی کا نہ صرف سرکاری طور پر واشنگٹن میں استقبال ہوگا بلکہ بہت سے اہم بھارت۔ امریکہ امور طے پائیں گے۔ ڈپلومیسی کے یہی تقاضے اور ملکی مفادات کی یہی ضرورت کہلاتی ہے۔ اب سال تک مریکی اتحادی کے طور پر فرنٹ لائن پر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے ملک پاکستان کی قربانیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا بلکہ بھارت۔امریکہ مشترکہ بیان کا آغاز ممبئی میں دہشت گردی کے اُس واقعہ سے آغاز کیا جاتا ہے جس کا الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے۔ بھارت افغانستان سے امریکہ کی واپسی کے خلاف ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ امریکہ افغانستان اور پاکستان میں بھارت کے حق میں حالات کو مکمل طور پر ہموار کرکے بھارتی برتری کے حوالے کرے اسی طرح بھارت کو WTO کے بعض امور پر امریکہ سے اختلاف ہے لیکن پاکستان کے بارے میں امریکہ اور بھارت کے درمیان کوئی اور کسی امور پر بھی اختلاف نظر نہیں آتا بلکہ یکطرفہ طور پرپاکستان کو ہی بھارت سے تعلق بہتر بنانے کے لئے دبائو میں لایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کے پاسپورٹوں پر نسلی امتیاز کرتے ہوئے بھارت جب ویزا دینے سے انکار کرتا ہے تو تمام امریکیوں کے مساوی ہونے کے امریکی قانون کی خلاف ورزی کے باوجود امریکہ بھارت کو کچھ نہیں کہتا۔ وقت اور حالات بدل رہے ہیں جنوبی ایشیا میں بھی عالمی طاقتوں کے مفادات اور ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔