ماہِ رمضان کا آخری جمعہ تھا، میں نماز کیلئے قریبی مسجد پہنچا تو وہاں کھڑا ہونے کی بھی گنجائش نہیں تھی، ڈرائیور سے کہا جلدی سے کسی اور مسجد میں لے چلو۔ دوسری جگہ پہنچا تو اس میںتِل دھرنے کی جگہ نہ تھی، لوگ سڑک پر بھی کھڑے تھے۔ تیسری مسجد میں پہنچے تو موسلادھار بارش شروع ہوچکی تھی۔ لوگوں کا ہجوم اس قدر زیادہ تھا کہ پارکنگ اور سڑکوں پر بھی انسانوں کی قطاریں لگ گئی تھی۔ شہر میں ہزاروں، لاکھوں افراد نے سڑکوں اور گلیوں میں کھڑے ہوکر نماز ادا کی۔ یوں لگتا تھا کہ انسانی آبادی کے تمام مرد نماز ادا کرنے نکل آئے ہیں۔یہ خوشی کی بات ہے کہ اﷲتعالیٰ کے ایک حکم کی تعمیل ہوئی۔ انسانوں نے اپنے خالق کی فرمانبرداری میں مسجد کا رُخ کیا۔ مگر دکھ اور تشویش اس بات پر ہے کہ ہماری عملی زندگی میں اس جذبے کا اظہار کہیں نظر نہیں آتا۔ ہم مسجد سے باہر آتے ہیں تو اﷲکی فرمانبرداری اور اس کے حکم کی بجا آوری کا خیال دل سے نکال پھینکتے ہیں۔ ہم اپنے دفتروں، دکانوں، کارخانوں اور ایوانوں میں پہنچتے ہی ـ’’جیسے تھے‘‘کی کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مکہ مکرمہ میں بھی مسجدالحرام میں عمرے کیلئے آئے ہوئے انسانوں کا اژدھام دیکھ کر یہی خیال آتا ہے۔ لاکھوں لوگ پیسے اور وقت کی قربانی دے کر اورسفر کی صعوبتیں اٹھا کر پہنچتے ہیں۔ یقیناً اپنے مالک کی خوشنودی کیلئے آتے ہیں۔ مگر مکہ اور مدینہ سے نکلتے ہی عملی زندگی میں پھر ویسے کے ویسے ہی ہوجاتے ہیں۔ ہم سرکاری ملازمت میں ہوں یا تجارت وصنعت میں، تمدن اور سیاست میں ہوں یا کاروباری معاملات میں، ہماراطرزِ عمل یکسر بدل جاتا ہے۔ ہمارے دنیاوی معاملات میں حج وعمرے کا جذبہ کہیں نظر نہیں آتا۔ کرپشن میں کمی نہیں آرہی، گراں فروشی اور بڑھ گئی ہے۔ ناانصافی، جرائم، بددیانتی اور فراڈ کو فروغ مل رہا ہے۔ زندگی کے ہرشعبے میں اﷲ کی نافرمانی عروج پر ہے۔ لگتا ہے نماز محض دکھاوا ہے۔ہمارے امام بے حضور اور نمازیں بے سرور ہیں۔ نمازوں کی رسم اور ritualہے مگر روح غائب ہے۔ سجدے ہیں مگر ان میں جان نہیں۔ اُمّت کا حکیم اور مفکّر اقبالؒ اسی لئے کہتا تھاکہ
وہ سجدہ روحِ زمیںجس سے کانپ جاتی تھی
اُسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
ہماری نمازیں بے جان اور دعائیں بے اثر کیوں ہیں؟ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے ذہنوں میں خالق اور مخلوق اورخود خدا کے بارے میں عجیب وغریب تصّور بنارکھا ہے ۔ ہم میں سے کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصّوربڑا مبہم ہے۔ زیادہ تر نے یہ سمجھ لیا ہے کہ خداتعالیٰ ایک بڑا پیر ہے جس کی درگاہ آسمانوں پر ہے۔ جس طرح ہر پیر صاحب کے پاس سال میں ایک دومرتبہ نذرونیازکے ساتھ حاضری دی جاتی ہے اور سالانہ نذرانہ پیش کرنے سے پیر سائیں خوش ہوجاتے ہیں اور کاروبار میں کامیابی اوردیگر خواہشات پورا ہونے کیلئے تعویزدے دیتے ہیں اسی طرح بڑے ’’پیر صاحب‘‘کی خدمت میں جمعے اور عید کی نمازوں کی نذر لے گئے یا اس کے بڑے گھر مکہ میں عمرے کی نیاز لے کر چلے گئے توبڑے پیر سائیں خوش ہوجائیں گے پھر یہ سال بھر کیلئے یا باقی زندگی کیلئے کافی ہوگا۔ ہم میں سے اکثر خانہ کعبہ کو بھی کوئی بڑی درگاہ سمجھتے ہیں اور وہاں اپنی منتیں منوانے کیلئے جاتے ہیں، دنیاوی زندگی کے ہرجائز اور ناجائز کام کیلئے ہم اﷲ کے کرم کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کوئی گھٹیا سی فلم چل جائے تو ڈائریکٹر کہتا ہے کہ مولا کے کرم سے بڑی کامیابی ملی ہے، کسی فحش ڈانسر کا شو ہٹ ہوجائے تو وہ بھی اُسے اوپر والے کا فضل قراردیتی ہے۔ ہمارے اس تصور کے مطابق ’’بڑے پیر صاحب‘‘ ہماری زندگیوں کے زیادہ تر دنیاوی معاملات سے لاتعلق ہیں یا ہم انہیں دخل اندازی کی اجازت نہیں دیتے۔ صرف اپنے کاروبار میں ’’برکت‘‘ کیلئے ان کی کتاب کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لئے ہم اسے خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر الماری میں رکھ لیتے ہیں۔ اگر کوئی مصیبت یا بیماری طول پکڑ جائے تو دس بارہ ہزار خرچ کرکے مسجد کے مولوی یا مدرسے کے بچّوں کو بلاکر دعاکرادی جاتی ہے۔
مگر اﷲتعالیٰ نے آسمانی صحیفوں اور اپنے رسولوں کے ذریعے جو اپنا تعارف کروایاہے وہ اِس تصوّر سے بالکل مختلف ہے جو ہم اپنے ذہنوں میں لئے پھرتے ہیں۔
آسمانی کتابوں اور رسولوں کے مطابق وہ ہمیشہ قائم رہنے والی ایسی بااختیار ہستی ہے جس نے انسانوں سمیت کائنات کی ہرچیز کو تخلیق کیاہے۔ تمام طاقتیں اور تمام تعریفیں اسی کیلئے ہیں اگر کسی انسان کے پاس کوئی طاقت ہے تو اس کی عطا کردہ ہے اگر کسی انسان میں کوئی خوبی ہے تو اسی کی بخشی ہوئی ہے اس نے انسانوں کو ایک خاص مقصد کیلئے پیدا کیا ہے۔ انسانوں کو اپنے ہرعمل اور فعل کا حساب دینا ہوگا۔ خالق نے انسانوں کیلئے زندگی گزارنے کا ضابطے، ہدایات،ڈُوز اینڈ ڈونٹس مقرر کردئیے ہیں جو ان کے مطابق زندگی گزاریں گے، آخرت (جو موجودہ زندگی کے بعد شروع ہوگی) میںانہیں اس کا اجر ملے گا اور اس کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو عبرتناک سزا ملے گی۔ وہ انسانوں کے دلوں کے راز تک جانتا ہے۔ وہی ہرچیز کا خالق اور مالک ہے اور وہی کائنات کا منتظم اعلیٰ ہے۔ زمین، سورج، چاند ستارے سب اس کے حکم کے مطابق متعین راستوں پر چل رہے ہیں۔ وہ اتنا طاقتور ہے کہ اس کے حکم کے بغیر ایک پَتّا بھی نہیں گر سکتا۔ اس نے انسانوں کو پیداکرکے بے مہار نہیں چھوڑدیا۔ وہ چاہتا ہے کہ تمام انسان اس کی بنائی ہوئی ہدایات کے مطابق زندگی گزاریں۔ہر انسان کے ایک ایک فعل پر اس کی کڑی نظر ہے، انسانوں کا ہر عمل نوٹ کیا جارہاہے۔ اس کڑے امتحان میں پاس ہونے کیلئے ضروری ہے کہ انسان اس کے کسی ایک یا چند احکامات نہیں بلکہ تمام احکامات کے آگے سرجھکادیںاور ان پر عمل کریں۔ اپنی مرضی کے چند selectiveاحکامات پر عمل کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔ ربِّ ذوالجلال انسانوں سے مکمل اطاعت(complete submission)مانگتے ہیں۔ کیا ایسی بااختیار ہستی کو زندگی کے کسی شعبے سے بیدخل کیا جاسکتا ہے؟
کچھ عرصہ پہلے سٹاف کالج میں ایک افسرزوروشور سے تقریر کررہا تھا کہ’’ مذہب ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے اس کا ریاستی امور کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ اسے فوری طور پر الگ کیا جائے‘‘ کچھ اور افسر بھی اس کی ہاں میں ہاں ملارہے تھے۔ لیکچر روم سے نکل کر میس میںپہنچے تو میں نے کہا ’’میرے بھائی یہاں سٹاف کالج میں ڈائریکٹر جنرل کے احکامات کی بجاآوری کیلئے آپ اپنے بھاری وجود کے ساتھ دوڑتے ہوئے کلاس میں بروقت پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر تقریب میں خاص لباس پہن کر شرکت کرتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل نے چھ مہینوں کیلئے جو ضابطے اور قوانین مقررکئے ہیں ان پر ہر آفیسر عمل کررہا ہے۔ کوئی خلاف ورزی کی جرأت نہیں کرتا تاکہ ڈی جی منفی رپورٹ نہ بھیج دے۔ آپ خود تو ایک ادارے کے ڈی جی کی حکم عدولی کی جرأت نہیں کرتے اپنے Boss کی خوشامد میں آخری حد تک چلے جاتے ہیں مگر ہمیں پوری کائنات کے چیف ایگزیکٹو کے احکامات نہ ماننے پر اکسارہے ہیں۔ میرے بھائی اﷲتعالیٰ اگرکوئی پیرسائیں یا روحانی شخصیت ہوتے تو ریاست اور سیاست سے لاتعلق رہ سکتے تھے لیکن اگر وہ پوری کائنات کا خالق ہے، ایک عظیم الشان منتظم ہے، ساری طاقت اور اختیارات کا مالک ہے۔ وہ کائنات کو تخلیق کرکے لاتعلق ہوکر نہیں بیٹھ گیا۔اس نے انسانوں کو ایک خاص مقصد کیلئے پیدا کیا ہے۔ ان کے لئے قوانین وضوابط، حدودوقیود مقرر کی ہیں،انسانی زندگی کے ہر شعبے کیلئے ہدایات اور ضابطے مقرّرکئے ہیں اور ان پر عمل کرنے اور نہ کرنے کی جزا اور سزامقررکی ہے ۔ تو بھائی ایسے زبردست حاکم اور شہنشاہ کو آپ اُسی کی ریاست سے بیدخل کرنے کا کیسے سوچ سکتے ہیں؟ (جاری ہے)