• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دس سال ہوئے، سماب قزلباش اپنے گھر سے اولڈ پیپلز ہوم میں منتقل ہوگئی تھیں۔ یہ انہوں نے اپنی مرضی سے اس لئے کیا تھا۔ وہ لندن میں دو بیڈ روم کے فلیٹ میں ایک عمر سے رہ رہی تھیں۔ ایک بیڈ روم پر ان کے شوہر کا اور دوسرے بیڈ روم پر ان کے بیٹے کا مع اپنے دو اولادوں کے قبضہ تھا۔ وہ سمجھدار خاتون تھیں کہ عمر کے چالیس برس، بی بی سی میں کام کرتے ہوئے گزارے تھے۔ بڑھاپے میں یہ قدم انہوں نے جان بوجھ کر اپنی مرضی سے اٹھایا۔ وہ ون روم رہائشی کمرہ جس کے ساتھ ایک غسل خانہ اور کچن بھی تھا۔ اپنی مرضی سے کھانا پکاتی تھیں۔ نہیں تو آرڈر پر منگوالیتی تھیں۔ ہم لوگ ملنے جاتے تو فریزر میں سے کھانا نکال کر کھلادیتیں اور ہنستے ہوئے کہتیں ’’چلو اچھا ہوا، سال بھر کا پراناکھانا ختم تو ہوا‘‘۔ اپنے انتقال تک وہ اطمینان کے ساتھ اسی گھر میں رہتی رہیں۔ اب چونکہ چلا نہیں جاتا تھا۔ اس لئے تمام دوستوں کو ملاقات کے لئے بلالیتی تھیں۔ جو مہمان میری طرح کا آیا ہوتا، اس کو بھی بلاکر خوب پیٹ بھر کر کھانا کھلایا کرتی تھیں۔
ہمارے ملک میں ابھی تک ماں باپ یا ساس سسر کو یہ ہوش نہیں آیا کہ اگر بیٹا بہو اچھے تعلقات نہ رکھیں اور والدین سے نوکروں کی طرح سلوک کریں تو وہ اپنی محبت، زمانے کا خیال اور دنیا کیا کہے گی کہ طعنوں کو نظر میں نہ رکھیں اور اولڈ پیپلز ہوم میں جاکر یا پھر چھوٹا سا فلیٹ لے کر الگ رہنے لگیں۔ آخر ہماری دوست اختر جمال نے بھی تو یہی کیا تھا۔ وہ سامنے والی بلڈنگ میں ایک کمرے کا فلیٹ لے کر اس لئے رہتی رہی کہ بیٹے کی شکل دیکھ لیا کرے گی اور بچوں سے مل لیا کرے گی۔ مرتے دم تک وہ اسی فلیٹ میں رہیں۔ لندن میں ہماری دوست واکر کے ساتھ چلتی ہیں۔ شاعرہ ہیں صدیقہ شبنم ان کا نام ہے۔ وہ بھی بڑا گھر چھوڑ کر ایک بیڈ روم کے فلیٹ میں منتقل ہوگئی ہیں۔ اولاد، اپنے اپنے گھر ہے۔ وہ بھی اسی واکر سے چلتے ہوئے کھانا بناتی ہیں اور خوب مہمان نوازی کرتی ہیں۔ یہاں تک تو تذکرہ تھا۔ انگلینڈ میں رہنے والی ہماری دوستوں کا۔ اب آئیں ذرا پاکستان لوٹ آئیں۔
ہمارے بہت ہی عزیز سینئر اور دوست مشہور شاعر احمد راہی تھے۔ ان کے لئے بھی اقبال ساجد کی طرح پیسے جمع کرکے ہم لوگوں نے فلیٹ کا بندوبست کردیا تھا۔ چونکہ اب ’’ماجھے دا کھڑاک‘‘ جیسی پنجابی فلمیں بننا شروع ہوگئی تھیں۔ احمد راہی کو یہ طرز شاعری ناپسند تھا۔ اس لئے اب اسٹوڈیو جانا بھی بند ہوگیا تھا۔ گھر پہ کھانے کو کچھ نہ تھا۔ اس لئے فلیٹ بیچ کر کرائے کا چھوٹا سا مکان لے کر، گزر بسر کرنی شروع کردی۔ مشرقی روایات کا آدمی تھا۔ بیوی ٹیلیفون آپریٹر تھی۔ اس کی نوکری چھڑا دی تھی۔ بیٹے کو ان کی زندگی میں ڈیلی ویجیز پر پارلر میں رکھ لیا گیا تھا۔ وہ نوکری بھی ختم ہوگئی۔ لڑکا بالکل ماں کا کہا نہیں مانتا تھا۔ اپنی مرضی کی نوکری چاہتا تھا۔ میں نے بہت جگہ کوشش کی مگر لڑکے کی نوکری سے بے توجہی کی وجہ سے ہر جگہ سے نوکری چھوٹتی چلی گئی۔
ماں اکیلی جان، اس کے دو بچے بھی ساتھ وہ کہاں سے اور کہاں تک پیسے بٹورتی تھی۔ آخر کو بیٹے کی حرکتوں سے تنگ آکر، اولڈ پیپلزہوم میں شفٹ ہوگئی ہے۔ سنا ہے اکیڈمی والے بھی چھ چھ ماہ بعد وظیفہ بھیجتے ہیں۔ خیر سے وظیفہ کی رقم اتنی بڑی نہیں ہوتی کہ خاندانوں کو پالا جاسکے۔ اب ادیب شور تو مچا رہے ہیں کہ یہ کیا ستم ہے۔ مگر میں احمد راہی کی بیوی کا اسے صائب قدم سمجھتی ہوں۔ بیٹا اور بہو کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے بہتر یہ ہے کہ وہ الگ اپنی زندگی اور عزت کو بچا کر بیٹھ گئی ہے۔ یہ الگ بات کہ ابھی اولڈ پیپلزہوم کی حالت بہت بہتر ہونے والی ہے۔ ہمارے بہت سے مخیرحضرات ان گھروں کی جانب توجہ کریں اور ایدھی ہوم کی طرز پر نئے بزرگوں کے لئے گھر کھڑے کردیں تو مناسب اور بہت سے بزرگوں کی بڑھاپے میں عزت بچ جائے گی۔ ویسے بیت المال کو بھی ایسے ادارے قائم کرنے چاہئیں کہ اب وہ زمانہ ختم ہوگیا کہ گھروں میں بزرگوں کی عزت کی جاتی تھی۔
اسی سلسلہ کلام میں مجھے دلدار پرویز بھٹی کے گھر کی کہانی بھی یاد آرہی ہے۔ دلدار تو جوانی ہی میں بے تحاشہ کام کرنے کے باعث دل کے دورے کے ہاتھوں جان دے بیٹھا۔ اس جیسا ذہین بس معین اختر تھا کہ وہ بھی دل کے دورے کے باعث ہم سے بچھڑ گیا مگر معین اختر نے اپنے خاندان کے لئے آئندہ کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ دلدار کو تو یہ بھی وقت نے مہلت نہیں دی۔ اس کی بیوی سرکاری فلیٹ میں رہتی رہی، نوکری بھی کرتی رہی۔ اب جبکہ وہ ریٹائر ہوگئی ہے۔ گھروں پہ قبضہ کرنے والوں کی نگاہیں اٹکی ہوئی ہیں۔ اس پہ چاروں طرف سےزور ڈالا جارہا ہے کہ گھر خالی کردو۔
اب میں اس خوش سیرت کو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ تم بھی احمد راہی کی بیگم کی طرح اولڈ پیپلز ہوم جاکر رہو اور باقی ماندہ زندگی خاموشی سے بسر کرلو۔ میں تو بہت سے بزرگ جو میری عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ حوصلہ کرکے کہتی ہوں کہ اپنی اپنی اولادوں سے روز ملا کریں مگر ان کو اپنی زندگی گزارنے دیں۔ بچوں کی آیا بن کر زندگی نہ گزاریں۔ اپنی مرضی سے بچوں کی جتنی خدمت ہوسکتی ہے کریں۔ بڑھاپے میں آپ کو بھی آرام کی ضرورت ہے۔ آپ کی ہڈیاں اب بوجھ نہیں اٹھا سکتی ہیں۔ اگر آپ کا اپنا فلیٹ یا چھوٹا سا گھر ہے تو اس میں رہیں۔ اپنی الگ دنیا میں آپ دونوں میاں بیوی ہیں اور بھی قربت ہوگی اور بچوں سے دوری کے باعث، عزت اور وقار بھی قائم رہے گا۔ ہر چند کچھ بچے بھی اتنے فرمانبردار اور نیک ہوتے ہیں کہ وہ بڑھاپے میں ماں اکیلی ہو یا دونوں ماں باپ ہوں ان کو اسقدر عزت اور آرام کے ساتھ رکھتے ہیں کہ دیکھ کر رشک آتا ہے اور ان کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام برصغیر میں مغلوں کے بعد، رواج پایا۔ پہلے تو گھر میں ایک ایک کمرہ، ایک ایک خاندان کے لئے مخصوص کردیا جاتا تھا۔ پھر سب کا کھانا مشترک بنتا تھا۔ سب ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھاتے تھے۔ زمانہ اور رنگ بدلا تو ہر ایک کا چولہا الگ ہوگیا۔ ایک دوسرے سے منہ پھیر کر جانے لگے۔ سلام دعا بھی ندارد۔ آخر کو کئی جگہ تو سر پھٹول پہ نوبت آئی۔ ایک دوسرے کے خلاف مقدمے بازی ہونے لگی۔ ایک انچ زمین پر ایک خون ہونے لگا۔ آخر کو اپنا گھر اور اپنا چولہا سامنے آیا۔ دیہاتوں میں کم اور شہروں میں تو اکثر یہی منظر نامہ ہے۔ اس فتنہ گری سے رہائی پانے کے لئے، بزرگ اور سمجھ دار والدین الگ فلیٹ لے کر رہتے ہیں۔ بچوں کو توفیق ہو تو ملنے آجاتے ہیں۔ ورنہ تم اپنے گھر خوش، ہم اپنے گھر، مغرب میں تو بہو ایک کافی کا کپ پیش کردے تو ساس خوش ہوکر بتاتی ہے کہ میری بہو نے آج کافی پلائی۔ ہمیں اس منزل پر نہیں جانا ہے۔
تازہ ترین